Ch-Anwar-Chohan

بھیڑ بکریاں یا کیڑے مکوڑے . تحریر چوہدری انور چوہان

چند دن پہلے جب لانگ مارچ کھاریاں سے آگے سرائے عالمگیر جانا تھا تو اُسی دن بمعہ فیملی بسلسلہ ضروری کام لالہ موسی اپنی ذاتی سواری سے جانے کا اتفاق ہُوا مختلف وسوسوں نے ذہن کو گھیرا ہوا تھا ڈنگہ روڈ اور جی ٹی روڈ پر لوڈر ٹرکوں کی بھاری تعدا د نظر آئی جنکو بیریر لگا کر پولیس نے روکا ہوا تھا جو حکومت اور لانگ مارچ والوں دونوں کی جان کو رو رہے تھے جبکہ چھوٹی ٹریفک کسی نہ کسی طور اپنے زورِ بازو پر چل رہی تھی حیرانی اُس وقت ہوئی جب چند لاپرواہ لونڈے لپاڑوں کے علاوہ سڑک پر کوئی یاور نہ تھا کھاریاں ، لالہ موسی پولیس کے دستے بمعہ ڈھولچی سیاسی ڈیروں سے لائی گئی ٹولیوں کو بحفاظت گرینڈ سٹی پہنچاتے نظر آئے شاید پنجاب حکومت کی ہدایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ غیر سرکاری فریضہ سرکاری جان کر ادا کر رہے تھے ہمارے تھانہ کھاریاں اور تھانہ سرائے عالمگیر کے ایس ایچ او صاحبان تو ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے نوٹ نچھاور کرتے اور کراتے ہوئے ساری دنیا نے دیکھے بعد میں ڈی پی او گجرات نے انکی اس کارکردگی کو سراہتے ہوئے انکو انعام و اکرام سے نوازا یا سرزنش کی تاحال میرے علم میں نہیں البتہ ایک بات واضع ہوگئی کہ ریاست اس وقت مکمل مفلوج ہوچُکی ہے امن وامان کی صورتحال یہ کہ جہاں چند لونڈے لپاڑے چاہیں ڈنڈا بردار ہوکر سارے مُلک کو جام کر دیں یہ لمہہ فکریہ ہے اس سے بڑا لمہہ فکریہ یہ کہ پولیس انکو روکنے کی بجائے انکی مدد گار ہو مُلک کا دفاع تو شاید محفوظ ہاتھوں میں ہے مگر اسکے افراد یرغمال نظر آتے ہیں شاید سرکار کی نظر میں خطہ ِزمین جسکو پاکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے کی اہمیت ہے مگر اس خطہ زمین پر بسنے والوں کی اوقات بھیڑ بکریوں یا کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر نہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں