ناموسِ رسالت ﷺاور ہمارا طرزِ عمل تحریر :سلطان محمود(پیرس )فرانس

یہ سنہ دو ہزار بارہ کی بات ہے جب میں سائپرس (قبرص)میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھااور سائپرس میں ایک عظیم نقشبدی صوفی بزرگ شیخ ناظم الدین حقانی کی خانقاہ میں جانے کا اتفاق ہوا، میرے ساتھ معروف عالمِ دین علامہ عبدالستار سراج بھی تھے جو کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے شاگرد ہیں اور آج کل برطانیہ میں تدریسی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں، ہم ظہر کی نماز کے وقت وہاں پہنچے اور نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے متصل برآمدے میں بیٹھ کر شیخ صاحب کی آمد کا انتظار کرنے لگ گئے، تھوڑی دیر بعد وہاں شلوار قمیص میں ملبوس ایک باریش شخص تشریف لائے اور ہمارےپاس بیٹھ گئے، رسمی سلام دعا کے بعد موصوف نے اپنا تعاف کروایا کہ وہ ممتاز قادری کی لیگل ٹیم کا حصہ ہیں اور علامہ عبدالستار صاحب نے بھی اپنا تعارف کروایا اور ہمارا ممتاز قادری کے موضوع پر مکالمہ شروع ہو گیا۔

علامہ صاحب نے جیسے ہی حوالہ جات کے ساتھ دلائل دینا شروع کیے تو وہ فرمانے لگے جی آپ کتابوں کو چھوڑیں عشق کی بات کریں کہ اِس موضوع پر عشق کیا کہتا ہے، علامہ صاحب بار بار شرعی حوالہ جات کا مطالبہ کرتے مگر موصوف کا ایک ہی جواب ہوتا کہ جی عشق کیا کہتا ہے، پھر موصوف ممتاز قادری کے جیل کے معمولات بتانے لگ گئے اور اُن کی کرامات کا بیان شروع کر دیا، ہماری یہ بحث تقریباً ایک گھنٹے سے بھی زیادہ چلی مگر موصوف نے کوئی ایک بھی شرعی دلیل نہیں دی۔

آج سانحہ سیالکوٹ کی خبر پڑھتے ہی میرے ذہن میں یہ سوال دوبارہ گردش کرنے لگ گیا کہ کیا واقع ہی شریعت عشق کے تابع ہے یا عشق بھی شریعت کے دائرہ کار سے تجاوز نہیں کر سکتا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تو بَرِ صغیر پاک و ہند کے جید علماء ہی دے سکتے ہیں مگر جہاں تک تعلق ناموسِ رسالت ﷺکا ہے تو میری ناقص رائے میں بحثیت مسلمان اور بحثیت اُمتی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ہر عمل ناموسِ رسالت ﷺ کی حفاظت کا غماز ہونا چاہئے، مگر افسوس کی جب کسی کی بہن یا بیٹی کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہمارے جذبہِ ناموس رسالت ﷺ میں ہلکی سی جنبش بھی نہیں ہوتی، جب کسی بہن کو وراثت کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے تب بھی ہمارا جذبہ ناموس رسالت ﷺجوش نہیں کھاتا، جب بچیوں کو زیادتی کر کہ قتل کر دیا جاتا ہے تب بھی ہمیں ناموسِ رسالت ﷺ کی فِکر نہیں ہوتی۔

جب سرِعام ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ناپ تول میں کمی ہو رہی ہوتی تب ہمارے مفادات جذبہ ناموسِ رسالت ﷺپر غالب آ جاتے ہیں، جب زمینوں پر قبضے ہو رہے ہوتے ہیں، جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و غارت عام ہوتی ہے ، جب رشوت کے بازار گرم ہوتے ہیں، جب عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دی جا رہی ہوتی ہیں،جب زنا اور شراب کے اڈے سرعام چل رہے ہوتے ہیں، جب جہیز جیسی لعنت کو سینا ٹھوک کر مانگا جاتا ہے، جب بہوؤں کو ذندہ جلایا جاتا ہے اور جب جھوٹ سرِ عام بولا جا رہا ہوتا ہے تب ہم جذبہِ ناموسِ رسالت ﷺ کو مصلحت کی بھینٹ چڑھا کر اپنی ذندگیوں میں مشغول رہتے ہیں۔

ناموسِ رسالت ﷺ پر عوام کے طرزِ عمل کا مختصر جائزہ لینے کے بعد اب ہم ذرا اپنے نظامِ انصاف اور طرزِ حکمرانی کو ناموسِ رسالت ﷺ پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمارے ملک میں آمریت اور جمہوریت نامی تماشے آئے روز لگے رہتے ہیں، کبھی عوام کو جمہوریت کے فوائد بتائے جاتے ہیں تو کبھی آمریت کے ثمرات کا سبق پڑھایا جاتا ہے، بدقسمتی سے یہ دونوں طرزِ حکمرانی اپنے اپنے مفادات کا تحفظ تو کرتے رہے مگرعوام الناس کو مذہبی اور سیاسی شعور دینے کی کسی نے کوشش نہیں کی، ہمارے نظامِ انصاف نے بھی صرف انہیں دونوں طبقات کو بچانے کے لئے چھٹی والے دِن بھی عدالت لگا کر فائدہ پہنچایا مگر افسوس عام آدمی کو فوری انصاف کی فراہمی کو ممکن نہ بنا سکا، آمر آئے تو انہوں نے بھی مذہبی جذبات کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا اور سیاسی لیڈروں نے بھی مذہب کارڈ کھیلنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

جہاں اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کسی خاص مقصد کے لیے مذہبی گروہوں کو استعمال کیا تو وہیں سیاستدانوں نے بھی شیعہ، سنی اور وہابی کے نام پر اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کی بھر پور کوشش کی، ہمارے ملک میں تمام قوانین موجود ہیں مگر نظامِ انصاف اتنا پیچیدہ ہے کہ انصاف کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔

اِس طرح کے سانحات کی ایک بڑی وجہ جید علماء کی خاموشی بھی ہے، عوام الناس میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والے تمام مکتبہِ فکر کے علماء اگر ایک دوسرے کے خلاف فتوٰی بازی کو چھوڑ کر ناموسِ رسالت ﷺ جیسے حساس مسئلے پر ایک متفقہ فتوٰی جاری کریں تو یقیناً اِس طرح کے سانحات سے بچا جا سکتا ہے، آج اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود کسی بھی بڑے عالمِ دین کا کوئی مذمتی بیان ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا، کوئی ڈر کر نہیں بول رہا تو کوئی خود ساختہ مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے، کوئی گدی نشین ابھی تک سامنے نہیں آیا حالانکہ تمام گدیاں ناموسِ رسالت کی اصل روح کی حفاظت کی پابند ہیں،

الغرض کہ عام عوام سے لے کر حکمرانوں تک، علماء سے لے کر مشائخ تک ہر کوئی ناموسِ رسالت ﷺ کو اپنی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا رہا ہے، کوئی بھی ناموسِ رسالت کی اصل روح کا پہرہ دینے کو تیار نہیں، اور اگر خدانخواستہ صورتحال ایسے ہی رہی تو شاید ہم دینِ متین کا پُر امن پیغام غیر مسلوں تک پہچانے کی بجائے خود کو ہی اِس آگ میں جلا کر راکھ کر لیں گے۔

مجھے کافر کہوگے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا
روز محشر میرا بھی وہی خدا نکلا تو تیرا کیا ہوگا
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے!!
کیسا عاشق ہے ترے نام پہ قرباں ہے مگر
تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے!!
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر ہی مسلمان ہوا پھرتا ہے!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں