پاکستان میں سیاحت کا فروغ.تحریر شوکت علی کوپن ہیگن ڈنمارک

پاکستان میں سیاحت کا فروغ.

تحریر۔   شوکت علی کوپن ہیگن ڈنمارک

آج کے جدید دور میں سیر و سیاحت ایک باقاعدہ صنعت کی حثیت اختیار کر چکی ہے جس طرح پیداواری صنعتیں ملک کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہوتی ہیں اسی طرح سیر و سیاحت کے لیے کسی بھی ملک میں جانے والے سیاح نہ صرف اس ملک میں اپنے ساتھ زرمبادلہ لیکر جاتے ہیں بلکہ اگر ان کا قیام اس ملک میں خوشگوار ہو تو وہ اس کا ذکر دوسرے لوگوں سے کر کے اس ملک کے بہتر تشخص کی تشہیر کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پاکستان کو معاشی ترقی اور دنیا تک اپنے پرامن اور فطری خوبصورتی سے مالا مال ہونے کا پیغام اسی صورت میں پہنچایا جا سکتا ہے جب سیر و سیاحت کو فروغ دیا جاۓ چنانچہ اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوۓ کوپن ہیگن ڈنمارک میں سفارت خانہ پاکستان نے ایک تصویری نمائش کا انعقاد کیا ہے۔ یہ نمائش ایک ماہ تک جاری رہے گی اور ہر ویک اینڈ پر یعنی ہفتہ اور اتوار کو بارہ بجے سے چار بجے تک عوام الناس کے کیے کھلی رہے گی اور پانچ دسمبر کو اس کا اختتام ہو گا۔ تقریب کے آغاز میں سفیر محترم احمد فاروق نے اس تقریب کی غرض و غایت بیان کرتے ہوۓ پاکستان میں سیر و سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار کرنے کی ضرورت پر زور دیا مثلاً سفیر محترم نے کمیونٹی کے افراد سے اپیل کی کہ جس طرح سفارت خانے نے اس تصویری نمائش کا اہتمام کیا ہے اسی طرح اگر کمیونٹی سفارت خانے کے ساتھ تعاون کرے تو اس نمائش کو شہر کے مختلف حصوں میں لے جایا جا سکتا ہے مثلاً پاکستان کے انتہائی خوبصورت شمالی علاقہ جات کی تصویریں کسی لائبریری میں ایک ہفتے کے لیے لگانے کا بندوبست کیا جاۓ یا پاکستانی نوجوان جو یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اگر وہ اپنے تعلیمی اداروں میں اس طرح کی تصویری نمائش کا اہتمام کروا سکیں جہاں ڈینش افراد کا آنا جانا ہوتا ہے تو ہم دوسروں تک ایک خوبصورت پاکستان کی تصویر پہنچا سکتے ہیں۔ ڈینشوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سفیرِ محترم کو ڈنمارک ریڈیو کی اردو سروس کے ساتھ پچیس سال تک منسلک رہنے والے اور ڈنمارک کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنے والے نصر ملک نے سفیر محترم کو ایک منفرد مشورہ دیا جس کی طرف شاید ہی کسی کا دھیان گیا ہو کہ ڈنمارک کی موجودہ ملکہ مارگریٹ اپنے زمانہ طالبعلمی میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا سفر کر چکی ہیں اور انکی تصاویر بھی موجود ہیں اگر ان تصاویر کو حاصل کر کے اس نمائش کا حصہ بنایا جاۓ تو یہ بات ضرور ڈینشوں کی توجہ کا باعث بنے گی کہ انکی محبوب ملکہ بھی کبھی ان خوبصورت علاقوں سے گزری ہیں۔
اسی طرح ڈنمارک کی شہزادی الیگزینڈرا نے بھی اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے سفیر کی حثیت سے پاکستان کے مختلف خوبصورت سیاحتی علاقوں کی سیر کی تھی اور بعد ازاں انھوں نے اسکی تفصیل سلسلہ وار پانچ مضامین میں رقم کی تھی، اگر ان مضامین کو بھی تصویری نمائش کا حصہ بنایا جاۓ تو ڈینشوں کو ان علاقوں کی خوبصورتی کو جاننے کا موقع ملے گا اور انکے دل میں وہاں جانے کی خواہش پیدا ہوگی کیونکہ ڈنمارک کی دو اہم ہستیوں کا ان علاقوں سے سیاحتی رشتہ ڈینشوں میں پاکستان سے تعلق اور شناسائی کا احساس پیدا کرے گا۔ سفیر محترم نے نصر صاحب کے اس مشورے پر عمل کرنے کو کوشش کا اظہار کیا۔
اس نمائش میں رکھی گئی تصاویر پاکستان کے شمالی علاقوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے فطری حسن سے مالا مال ہیں اور انسان ان تصاویر کو دیکھ کر یہ پوچھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا یہ جنت نظیر خوبصورت علاقے اسکے اپنے وطن میں ہی ہیں یا وہ کسی اور دنیا کا حصہ ہیں، اسکا جواب یقینا ہاں میں ہے کہ انسان کو اپنے سحر میں مبتلا کر دینے والے یہ خوبصورت مناظر اسکے اپنے وطن میں ہی موجود ہیں جن کے بیچ پہنچ کر انسان شاید اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا کا باسی محسوس کرنے لگے۔ سفارت خانہ پاکستان میں لگائی گئی تصاویر میں دیوسائی پارک جو دنیا کا دوسرا بلند ترین سیاحتی مقام ہے اور یہ پارک اپنے نام کے اعتبار سے بہت بڑا ہے کیونکہ دیوسائی کا مطلب دیو کا سایہ ہے۔ اسی طرح شنگریلہ ریسورٹ جہاں اونچے نیچے پہاڑوں اور ندی کناروں پر منفرد سیر گاہیں کسی اور ہی دنیا کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ ان علاقوں میں موجود پہاڑ جنکی چوٹیوں پر برف جمی ہوتی ہے۔ انکو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی طویل قامت انسان سر پر سفید ٹوپی پہنے کھڑا ہے اور آسمان سے سرگوشیاں کر رہا ہے۔ ان علاقوں کی خوبصورتی پکار پکار کر دنیا کے لوگوں کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص دعوتِ سیاحت دے رہی ہے۔ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا کام سب سے پہلے پاکستانیوں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا کہ جب بھی ہم پاکستان چھٹیاں گزارنے جائیں تو ان علاقوں کی سیر کو ضرور جائیں اور یہاں سے جو خوبصورت تجربات اپنے ساتھ لائیں انھیں دوسروں کے ساتھ شئیر کریں تاکہ ان میں بھی ان علاقوں کی سیر کا شوق پیدا ہو، اس سے ہمیں کچھ دیر کے لیے زندگی کے شور شرابوں سے دور فرقت اور آرام کے لمحے میسر آئیں گے تو دوسری طرف ہم اپنی ملکی معیشت اور ان خوبصورت علاقوں کے سادہ زندگی گزارنے والے لوگوں کے روزگار کا باعث بنیں گے۔ ان چھٹیوں سے اچھی چھٹیاں کونسی ہو سکتی ہیں جن میں سیر کی سیر اور بھلائی کی بھلائی ہو جاۓ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں