quaid-e-azam

قائد اعظم کی سیاست. تحریر شوکت علی

قائد اعظم کی سیاست

خود احتسابی/شوکت علی

پاکستان کے قیام کے مطالبے کے سامنے دو انتہائی منظم اور بڑی طاقتیں رکاوٹ بنی کھڑی تھیں، ایک برطانوی اقتدار اور دوسری آل انڈیا کانگریس۔ ان دونوں قوتوں کے مقابلے اور پاکستان کے قیام کے مطالبے پر ڈٹ جانے والی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ جسکی قیادت قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں میں تھی۔ برطانوی اقتدار جسکا جھنڈا تقریباً آدھی دنیا پر لہرا رہا تھا لیکن دوسری جنگِ عظیم نے اسے کمزور کر دیا تھا چناچہ اس صورت میں اسکا آل انڈیا کانگریس کے متحدہ ہندوستان کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیک دینا بعید از امکان نہیں تھا اور متحدہ ہندوستان روسی پھیلاؤ کے آگے برطانوی اور امریکی مفادات کے تحفظ کا بہتر ذریعہ بھی فراہم کرتا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم کی کرشماتی قیادت اور مسلمانانِ ہند کے اجتماعی سیاسی شعور کی بدولت برطانوی اقتدار اور کانگریسی طاقت کے غرور کو خاک میں ملاتے ہوۓ پاکستان کے خواب کو ایک حقیقت کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمودار کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ جو نہ تو کانگریس کی طرح ایک انتہائی منظم سیاسی جماعت تھی اور نہ ہی اسکے پاس وسائل کی فراوانی تھی تو وہ کونسی قوت تھی جو اسکی اصل طاقت بنی اور جس نے اپنے سے زیادہ طاقتور اور منظم قوتوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس کی ایک وجہ مسلمانانِ ہند کی اکثریت کا پاکستان کے قیام کے مطالبے کی حمایت تو تھا ہی لیکن اسکی سب سے بڑی وجہ قائد اعظم کی شخصیت اور اندازِ سیاست تھا۔ آپکی تمام تر جدوجہد آئینی حدود کے اندر رہی اسی لیے ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے نمائندے جو کسی کو بھی جیل میں ڈالنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے کبھی بھی محمد علی جناح کو پابندِ سلاسل نہیں کر سکے۔ قائد اعظم نے کبھی بھی غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے اسی لیے جب گاندھی جی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو قائد اعظم نے اسکی مخالفت کی۔ یہ قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے کا انوکھا واقعہ ہے کہ آپ غیر ملکی قابض حکمرانوں سے اپنے حق کا تقاضا قانون کے اندر رہتے ہوۓ کر رہے تھے، آپ لوگوں کو لاقانونیت اور دھنگے فساد کی راہ نہیں دکھا رہے تھے۔ جو لوگ قائد اعظم کو بڑا لیڈر اس لیے نہیں مانتے کہ وہ کبھی جیل ہی نہیں گے تو اگر وہ قائد اعظم کی شخصیت کو اس پہلو سے دیکھیں تو انھیں سمجھ آ جاۓ گی کہ ایسا کیوں نہیں ہوا اور ویسے بھی قائد اعظم فرمایا کرتے تھے کہ جیل مجرموں کے جانے کی جگہ ہوتی ہے۔
قائد اعظم کا سب سے بڑا ہتھیار انکی اصول پرستی تھی۔ آپ نے کبھی مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
ابو الحسن اصفہانی قائد اعظم کے انتہائی قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ اپنی کتاب “قائد اعظم- جیسے کہ میں انھیں جانتا ہوں” میں ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں جو قائد اعظم کی اصول پرستی کا عکاس ہے۔ انتخابات کا ماحول بڑا ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ جو امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں وہ جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں بلکہ اگر ہم محبت اور جنگ کے بارے میں کہے گے مقولے کو تھوڑا تبدیل کر کے یوں کہیں کہ محبت، جنگ اور انتخابات میں سب جائز ہوتا ہے تو بلکل درست ہوگا کیونکہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے امیدواران کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ آپ قائد اعظم کے کردار کا اندازہ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ وہ اس وقت بھی کس طرح سختی سے اصولوں پر قائم رہتے تھے جب کوئی بھی اصولوں سے رُوگردانی کر سکتا ہے۔ یہ واقعہ کلکتہ کے چیمبر آف کامرس کے انتخابات کا ہے۔ اصفہانی مسلم لیگ کے امیدوار تھے اور امید تھی کہ وہ بلا مقابلہ منتخب ہو جائیں گے۔ یہ بات مسلم لیگ کے لیے اس لیے بھی اہم تھی کہ انکے امیدوار کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کی صورت میں جماعت کا تمام ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کے دعوے کو تقویت ملتی تھی جبکہ کسی دوسرے مقابل کے امیدوار کے سامنے آنے سے ہارنے کا خطرہ تو نہیں تھا لیکن مسلم لیگ کے واحد نمائندہ جماعت ہونے کے دعوے پر حرف آتا تھا۔ ہوا یہ کہ انتخاب سے کچھ قبل ہی ایک اور امیدوار سامنے آگیا لیکن پھر اس امیدوار نے انتخاب کے عین قریب مقابلہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس بات کی خبر لیکر ایک پارٹی کارکن عبدالرحمان صدیقی بھاگتے ہوۓ اصفہانی کے پاس آے اور انھیں یہ خوشخبری سنائی لیکن اسکے ساتھ ہی مخالف امیدوار کا یہ مطالبہ بھی رکھا کہ اگر اسے اسکی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے جمع کروائی گئی زرِ ضمانت مسلم لیگ ادا کر دے تو وہ مقابلے سے دستبردار ہو جاۓ گا۔ جب عبدالرحمان صدیقی یہ بات اصفہانی سے کہہ رہے تھے تو قائد اعظم جو قریب ہی بیٹھے تھے جب انکے کانوں میں یہ بات پڑی تو وہ سخت ناراض ہوۓ اور کہنے لگے

“تم نے کیا کہا؟ پیسے دے کر فریقِ مخالف کو بٹھا دینا! یہ بلواسطہ
رشوت نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ جاؤ! اور اسے
کہو کہ ہمیں یہ منظور نہیں۔ ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔”

آپ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد سوچیں کیا ہم قائد اعظم کے پاکستان میں سیاست میں ایسی اصول پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ کیا ہم انتخاب جیتنے کے لیے تمام حدیں پار نہیں کر دیتے؟ کیا ہم بوگس ووٹ نہیں بناتے؟ کیا ہم ووٹ خریدتے نہیں؟ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے الیکشن جیتنے کے بعد اسے اللّٰہ کا انعام اور عزت سے
نوازنا قرار دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو کیا ساری دنیا میں سیاست میں اپنی بات سے پھر جانے کو سیاسی تدبر قرار دیا جاتا ہے اور جو بندہ جتنی خوبصورتی سے پینترے بدلتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ سیاست کے میدان کا کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ انگریز نے ہم پر حکومت کی اور کامیابی سے کی کیونکہ وہ اس خطے کے لوگوں کی فکری و ذہنی حالت سے خوب آگاہ تھا۔ اس خطے کے لوگوں کے رویوں میں فکری و ذہنی لچک ایک عام سی بات ہے۔ اس خطے کے لوگ بڑی آسانی سے اصولی معاملات میں بھی اگر مگر لیکن ویکن کر کے اپنے مفاد کے مطابق گنجائش پیدا کر لیتے ہیں۔ انگریز کو سیاست کی دنیا کے جس مردِ قلندر محمد علی جناح سے واسطہ پڑا وہ اس خامی سے پاک صاف تھا۔ وہ جس بات کو درست سمجھتا اس پر مضبوطی سے جم کر کھڑا ہو جاتا حتی کہ حالات و واقعات اسکی مرضی میں ڈھل جاتے تھے۔ قائد اعظم کی شخصیت کے اس پہلو کا اعتراف انکی وفات کے بعد ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸ء کے دی ٹائمز کے ایک مضمون میں کیا گیا ہے جس کا حوالہ دیے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ
“……for he provided in his own person the best illustration of his contention that the Muslims constitute a separate nation.There was nothing in him of the subtle flexibility of intellect which seems to the Englishman characteristic of the Hindu; all his ideas were diamond-hard, clear-cut, almost tangible. His arguments had none of the sinuosity of Hindu reasoning; they were directed, dagger-like, to the single point he was attacking.” (Obituary: The Times, 13 September 1948)

“قائد اعظم نے مسلمانوں کے ایک علیحدہ قوم ہونے کے مطالبے کو اپنی ذات میں بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا۔ انکے فہم میں کسی قسم کی لچک نہیں تھی جو انگریزوں کے نزدیک ہندوستانیوں کی خصوصیت ہے۔ آپ کے خیالات ہیرے کی طرح سخت، شفاف اور واضح ہوتے تھے۔ انکے خیالات میں ہندوؤں جیسی حیلہ سازی نہیں پائی جاتی تھی جنکو آسانی سے موڑا جا سکتا ہے، وہ بلکل سیدھے، خنجر کی طرح اسی ہدف میں جا پیوست ہوتے جس کو نشانہ بنایا جا رہا ہوتا تھا۔”

اس حوالے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اخبار نے میاں بشیر احمد بار ایٹ لا کہ اس شعر کی تشریح کر دی ہو۔

لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پے اس کا تیر
ایسی کڑی کمان ہے محمد علی جناح

یا پھر علامہ اقبال کا وہ شعر کانوں میں گونجنے لگتا ہے

وہی ہے مردِ حُر جس کی ضرب ہے کاری
نہ کہ وہ ہے جس کا حرب تمام عیاری

یہ تھے قائد اعظم کی ذات کے وہ اوصاف جو پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں انکے ہمرکاب رہے۔ ظفر اقبال اپنے شعر میں ایک چشم و فکر کشا حقیقت بیان کر جاتے ہیں جب آپ فرماتے ہیں کہ

مجھ سے چھڑواۓمیرے سارے اصول اس نے ظفر
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے

قائد اعظم کا حصار انکے اصول ہی تھے جو انھیں بحفاظت انکی منزل مقصود تک لے آے۔ انگریز قائد اعظم کو انکے اصولوں سے محروم کرنا چاہتا تھا۔ یہ گول میز کانفرنسوں کا زمانہ تھا جب برطانوی وزیر اعظم رمزے میکڈانلڈ نے قائد اعظم کو سیاسی رشوت دینی چاہئ تو قائد اعظم بغیر کچھ کہے اٹھ کر باہر چل پڑے۔ رمزے میکڈانلڈ آپ کے پیچھے آے اور آپ سے یوں اچانک رخصت ہونے کی وجہ پوچھی تو قائد اعظم نے کہا میں آپ سے آئندہ کبھی نہیں ملوں گا کیا آپ نے مجھے بکاؤ مال سمجھ رکھا ہے۔ قائد اعظم کی اس خوبی کو علامہ اقبال جیسے دیدہ ور نے پہچان لیا تھا۔ اسی لیے جب علامہ اقبال نے کہا کہ “مسٹر جناح کو اللّٰہ تعالی نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج تک ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی۔” حاضرین میں سے کسی نے پوچھا وہ خوبی کیا ہے تو آپ نے انگریزی میں کہا

“He is incorruptible and unpurchaseable.”
“وہ بدعنوان اور بکاؤ نہیں ہیں”

پاکستان کا قیام قائد اعظم کی شخصیت کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے بدعنوان اور بکاؤ نہ ہوتے ہوئے پاکستان جیسے دیوانے کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ آج سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن اصولوں پر چل کر قائد اعظم نے پاکستان بنایا تھا انھی اصولوں پر چلتے ہوۓ پاکستان کی تعمیر و ترقی ممکن نہیں ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں