“خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ: عدل کی ایسی مثال جو صدیوں گواہی دیتی رہے”
تحریر : واجد قریشی (ڈنمارک)
مدینہ کی تپتی ہوئی دوپہر ہے، سورج آگ برسا رہا ہے، اور زمیں جھلس رہی ہے۔ ایسے میں خلیفۂ وقت ایک سادہ چادر اوڑھے، بغیر کسی جاہ و جلال کے، ننگی زمین پر بیٹھا ہے۔ نہ کوئی شاہی تخت ہے، نہ سنہری عمامہ، نہ ہی محافظوں کی قطار۔ یہ وہی عمرؓ ہیں جن کے نام سے قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں لرزتی تھیں، جن کی ہیبت نے زمین پر انصاف کو زندہ کیا۔ مگر وہ خود، عمر بن خطابؓ، اللہ کے حضور پیشی کے تصور سے تھرتھرا اٹھتے تھے۔ ان کا یہ خوف نہ تخت کے چھن جانے کا تھا، نہ شہرت کے مٹنے کا، بلکہ صرف اور صرف اس دن کا تھا جب رب کائنات کے سامنے کھڑے ہو کر جواب دینا ہوگا۔ کہ تُو نے خلافت کے بوجھ کو کیسے اٹھایا؟
یہ وہ شانِ خاکساری ہے جو تاج و تخت سے نہیں، خدا کے خوف اور دل کی سچائی سے پیدا ہوتی ہے۔
حضرت عمرؓ کی زندگی کا محور صرف ایک مقصد تھا: اللہ کی رضا کے لیے عدل کا قیام۔ ان کا خلیفہ بننا کسی شان و شوکت یا اقتدار کی طلب نہیں تھا، بلکہ امت کے درد کو اپنے کاندھوں پر اٹھانے کا عہد تھا۔ انؓ کے دن رعیت کے کاموں میں، اور راتیں خدا کے حضور گریہ و زاری میں گزرتی تھیں۔ ان کی نیند اس وقت تک مکمل نہ ہوتی جب تک یہ یقین نہ ہو جاتا کہ بھوکے کو روٹی مل چکی ہے، مظلوم کو انصاف، اور بے آسرا کو پناہ۔
فاقہ زدہ بچوں کے رونے کی آوازیں انؓ کے دل کو چیر ڈالتی تھیں۔ انؓ کا دل اتنا زندہ، اور ضمیر اتنا بیدار تھا کہ ایک بار فرمایا:
“اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمرؓ سے اس کا حساب لیا جائے گا!”
سوچنے کا مقام ہے۔۔
کیا آج کے حکمران، آج کے لیڈر، یا ہم میں سے کوئی بھی شخص یہ جملہ دل سے ادا کر سکتا ہے؟
کیا ہمارے اندر وہ احساسِ جواب دہی باقی ہے جو عمرؓ کو راتوں کو جگاتا تھا؟
حضرت عمرؓ کی قیادت کسی انتخابی نعرے، سیاسی مفاد یا طاقت کے کھیل پر قائم نہ تھی، بلکہ تقویٰ، حکمت اور بے لوث عوامی خدمت پر استوار تھی۔ وہ خلیفہ ضرور تھے، مگر اُن کی سوچ عام آدمی کے دل سے جڑی ہوئی تھی، اور ان کا معیارِ زندگی رعیت کے سب سے کمزور فرد کے برابر تھا۔
حضرت عمرؓ کے اصول کسی خاص قوم یا مذہب تک محدود نہ تھے—وہ انسانیت کے سچے خادم، مظلوم کے محافظ، اور حق کے علَم بردار تھے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت، اختیار اور دولت محض ظاہری نعمتیں نہیں، بلکہ ایک عظیم آزمائش ہیں؛ جب تک یہ امانت، عدل اور خدمت کے جذبے سے نہ جُڑیں، یہ بوجھ بن جاتی ہیں، برکت نہیں لاتیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے کردار سے یہ واضح کر دیا کہ قیادت جبر کا نہیں، جواب دہی کا نام ہے، اور یہ امانت صرف اسی کے سپرد کی جانی چاہیے جو اللہ کی رضا کو دنیا کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتا ہو۔
ایک مرتبہ، جب بیت المال سے کپڑا تقسیم ہوا، تو حضرت عمرؓ نے بھی اپنا حصہ لیا۔ جمعے کے دن خطبہ دینے آئے تو ان کے جسم پر نسبتاً لمبا کرتا تھا۔
صحابہؓ میں سے کسی نے سوال کیا:
“یا امیرالمؤمنین! ہم سب کو جتنا کپڑا ملا، اتنے میں تو مکمل کرتا بن ہی نہیں سکتا، آپ کا کرتا کیسے مکمل ہوا؟”
فضا میں خاموشی چھا گئی، جیسے خود خلافت کٹہرے میں کھڑی ہو۔
تب حضرت عمرؓ کے بیٹے، عبد اللہؓ بن عمرؓ نے وضاحت کی:
“میں نے اپنا کپڑا والد کو دے دیا تاکہ ان کا لباس مکمل ہو جائے۔”
یہ تھا وہ معیارِ احتساب جہاں ایک خلیفہ کو عوام کے اعتماد کا جواب دینا پڑتا تھا۔
یہ واقعہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ایک خلیفہ کے کُرتے کے ٹانکے اور ایک عام فرد کے سوال کے درمیان وہ رشتہ تھا، جو قیادت کو عظمت عطا کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ثابت کیا کہ قیادت عزت نہیں، ذمے داری مانگتی ہے۔ اور جو اپنے لباس پر سوال برداشت نہ کر سکے، وہ رعیت کے زخموں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
آج جب دنیا مادّہ پرستی کی لپیٹ میں ہے، جہاں ضمیر کی آوازیں سرمایہ کے شور میں دب چکی ہیں، اور انصاف طاقتور کے ہاتھ کا آلہ بن چکا ہے۔ ایسے دور میں حضرت عمرؓ کی سادہ مگر جلالت سے بھرپور زندگی، امید کی ایک روشن کرن بن کر ہمیں نئی راہ دکھاتی ہے۔ انؓ کا طرزِ خلافت ہمیں سکھاتا ہے کہ عدل محلوں کا محتاج نہیں ہوتا، نہ ہی انصاف کے لیے اختیار کی کوئی شرط ہے۔ جو چاہے، جہاں چاہے، اگر دل میں خدا کا خوف اور خلقِ خدا سے محبت ہو، تو وہ بھی عدل کی شمع روشن کر سکتا ہے۔
تبدیلی دُور کہیں باہر سے نہیں آتی، وہ ہمارے اپنے اندر سے جنم لیتی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں میں انصاف کریں، اپنے لین دین میں دیانت لائیں، اپنی زبان سے سچ بولیں، اور اپنے دل میں اللہ کی حاضری کا یقین بٹھا لیں، تو عمرؓ کی روشنی آج بھی زمانے کو جگمگا سکتی ہے۔
حضرت عمرؓ کا پیغام صرف ماضی کی تاریخ نہیں، بلکہ ہر دور کے انسان کے لیے ایک زندہ، بیدار اور بامقصد دعوت ہے۔ ایک ایسی صدا جو آج بھی دلوں کو جھنجھوڑتی ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ قومیں ہتھیاروں سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں۔ اور عدل وہ بیج ہے جو اگر اخلاصِ ایمان سے بویا جائے، تو اس کے سائے میں صدیوں تک انسانیت سکون پاتی ہے۔
اگر آج کا مسلمان، آج کا لیڈر، آج کا نوجوان حضرت عمرؓ کی زندگی کو آئینہ بنالے۔ تو نہ صرف ایک قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے، بلکہ پوری انسانیت ایک نئی راہ پا سکتی ہے۔ لیکن اس راہ پر چلنے کے لیے صرف علم کافی نہیں، ضمیر کا جاگنا شرط ہے۔ وہ ضمیر… جو رات کی تنہائی میں عمرؓ کو رُلا دیتا تھا، اور دن کی روشنی میں انہیں حق کے لیے بے خوف بنا دیتا تھا۔