“محرم آیا ہے… خود کو پہچاننے کا وقت آ گیا ہے” تحریر : واجد قریشی (ڈنمارک)

“محرم آیا ہے… خود کو پہچاننے کا وقت آ گیا ہے”
تحریر : واجد قریشی (ڈنمارک)


محرم کا چاند جیسے ہی افق پر ابھرتا ہے، فضا میں ایک عجب سا سکوت سرایت کر جاتا ہے۔ یہ سکوت محض غم کا نہیں ہوتا، یہ درحقیقت شعور کی وہ خاموش دستک ہے جو دل کے بند دروازے پر جا ٹھہرتی ہے۔ یہ مہینہ بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ضرور ہے، مگر اس کی حیثیت ایک روحانی آئینے کی سی ہے، جس میں دیکھنے والا خود کو نئے زاویے سے پہچاننے لگتا ہے۔
محرم الحرام کی آمد محض تقویم کا ورق پلٹنے کا نام نہیں، بلکہ یہ وقت کے اس دہانے پر قدم رکھنے جیسا ہے جہاں تاریخ کا تسلسل دم سادھ لیتا ہے، اور ہر لمحہ جذبوں، احساسات اور عظمت کی داستان میں بدل جاتا ہے۔ سال کا پہلا مہینہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات قربانی سے ایک نئی شروعات چاہتی ہو۔ اور یہ شروعات ہمیں حسینؑ کے کردار سے جڑی قربانی کے مفہوم میں نظر آتی ہے۔


محرم صرف آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا موسم نہیں، بلکہ یہ دل کی گہرائیوں میں اٹھنے والے سوالات کا وقت ہے۔ یہ ہمیں خاموشی سے جھنجھوڑتا ہے کہ کیا ہم نے اپنے اندر کے یزید کو پہچانا؟ کیا ہم نے سچ کا ساتھ دیا یا مصلحت کی چادر اوڑھ لی؟ حسینؑ کی قربانی ہمیں خود کے ساتھ سچ بولنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ مہینہ ہمیں ضمیر کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے جہاں ہر انسان کو خود سے ایک سوال کرنا ہوتا ہے: “کیا میں حق کے ساتھ کھڑا ہوں؟”
کربلا کو اگر صرف ایک جغرافیائی مقام سمجھا جائے، تو یہ واقعہ محدود ہو جاتا ہے۔ مگر حقیقت میں کربلا ایک داخلی کیفیت، ایک فکری بغاوت، اور ایک روحانی بیداری کا نام ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جو ظلم کی تاریکی میں بھی جلتا رہا۔ امام حسینؑ نے دنیا کو یہ سبق دے دیا کہ اصل طاقت تلوار میں نہیں، اصولوں سے وابستگی اور حق پر ڈٹ جانے میں ہے۔ آج بھی وہ 72 نفوسِ قدسیہ، تاریخ کے سینے میں روشن چراغ کی مانند زندہ ہیں، جبکہ ظالموں کے نام وقت کی گرد میں دب کر مٹ چکے ہیں۔

عاشوراء.. ثورة خالدة ضد الظلم والطغيان

تاریخ کا آئینہ صرف ماضی کی جھلک دکھانے کے لیے نہیں، حال کو سمجھنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ جب ہم محرم کو دیکھتے ہیں تو صرف امام حسینؑ کی عظمت ہی نہیں، اپنی حیثیت بھی نظر آتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کربلا میں ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ سوال یہ ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کس خیمے کے وفادار ہیں؟ اگر آزمائش کا وقت آئے تو کیا ہم کردار کا پانی بچا پائیں گے، یا دنیا کے چند قطرے ہمیں بہا لے جائیں گے؟
یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کربلا فقط ماضی کی کہانی نہیں، ایک جاری حقیقت ہے۔ یزید ہر زمانے میں نئے چہروں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، اور حسینؑ ہر دل میں اس وقت زندہ ہوتا ہے جب وہ دل سچائی، انصاف اور اصولوں کی خاطر دھڑکتا ہے۔ کربلا ایک دائمی جنگ ہے، جس میں ہر انسان فریق ہے، چاہے وہ خود کو غیر جانب دار ہی کیوں نہ سمجھے۔
محرم صرف نوحہ، ماتم اور سوگ کا نام نہیں؛ یہ بیداری، احتجاج اور ارتقاء کا پیغام ہے۔ یہ مہینہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ وقت کے ساتھ ہم نے کیا کھویا، کیا پایا، اور ہمیں اب کس سمت بڑھنا ہے۔ جب دنیا ظالموں کے شور میں سچ کی آواز کو دبانے کی کوشش کرے، تو محرم ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک حسینؑ کافی ہوتا ہے تاریخ کو بدلنے کے لیے۔


یہ تحریر محض محرم الحرام کی یاد میں لکھی گئی سوگواری نہیں، بلکہ اس اندرونی صدا کا ترجمان ہے جو ہر اس دل میں اٹھتی ہے جہاں حق و باطل کا معرکہ جاری ہے۔ محرم کوئی معمولی مہینہ نہیں، یہ ایک نظریہ ہے، ایک جدوجہد ہے، ایک انقلاب ہے جو ہر دور کے زخموں پر امید کا مرہم رکھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں