کس کو تم نے سرِ دار کھو دیا لوگو

آج سے15سال قبل 27دسمبر کاچمکتا سورج بلاول بھٹو زرداری،آصفہ بھٹو زرداری،بختاور بھٹو زرداری کے سر سے ماں کا سایہ چھین کر غروب ہوگیا کون جانتا تھا کہ لاکھوں غریبوں کی آس کا قتل کردیا جائے گا کون جانتا تھا کہ لیاقت باغ میں میدان حشر کا سماں ہوگا اپنی زات سے ہٹ کر عظیم ترنصب العین کیلئے زندگی کو قربان کردینا ہی زندگی کودوام بخشتا ہے انسانیت کو ظلم و جبر سے نجات دلانا مقصد ہو تو انسانیت بھی ناز کرتی ہےپاکستان کی سالمیت اور استحکام کے دشمن عناصر نے27دسمبر 2007ء کے دن بے نظیر بھٹو کو شہید کر کے اُن کے جسمانی وجود سے چھٹکارا تو حاصل کر لیا،مگر اُن کی مقبولیت ، لوگوں کے دلوں پر حکمرانی،اور طلسماتی اور کرشماتی شخصیت کو نہ مٹا سکے

اکیس جون 1953 کو کراچی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کے گھر ننھی پری نے آنکھ کھولی جس کا نام والد نے اپنی بہن کی نسبت سے بینظیر رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی لاڈلی کو بیٹی کو پنکی کہہ کر پکارتے۔ ضیاء کے مارشل لاء اور والد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد بینظیر بھٹو نے سیاست کے کارزار میں قدم رکھا۔بے نظیر بھٹو نے 1969-73ء کیمبرج میں ریڈمکف کالج، میسا چوسٹس سے بی اے کی ڈگری لی۔1973-77ء تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہیں۔

بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 1971-77ء وزیر اعظم رہے۔ 1977ء جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت برطرف کردی۔ 1979ء ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔سن 1984ء بے نظیر کو ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی اور وہ برطانیہ چلی گئیں۔ضیاء کے مارشل لاء اور والد کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد بینظیر بھٹو نے سیاست کے کارزار میں قدم رکھا تو ان کی جدوجہد اور قربانیاں رنگ لائیں۔ وہ اپنے والد کی پیپلز پارٹی جانشین رہنما بن گئیں لیکن پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد ہی وہ موثر ہوسکیں۔اٹھارہ جولائی کو شاہنواز بھٹو کی پراسرار حالات میں موت ہوئی۔

بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی 1987ء18 دسمبر کو ہوئی۔اگست 1988ء میں پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرلی۔ 1988ء 2 دسمبر محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخ کی سب سے کم عمر اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔چھ اگست 1990ءصدر غلام اسحق خان نے بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت کو برطرف کردیا۔ 1990ء 10 اکتوبر آصف علی زرداری کو گرفتار کرلیا گیا۔انیس سو ترانوے اکتوبر میں پیپلز پارٹی دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہوئی، بے نظیر بھٹو 1996 تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر قائم رہیں۔ شام سے بے نظیر کے جلاوطن بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے واپس آنے سے انہیں مشکلات کا سامنا ہوا کیوں کہ ان کی والدہ نصرت بھٹو بیٹے کی طرف داری کرتی تھیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو کو آتے ہی گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا مرتضیٰ پر پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا الزام بھی تھا۔ جب انتخابات میں میر مرتضیٰ نے نشست حاصل کرلی تو انہیں رہا کردیا گیا۔

1996ء کرپشن کے الزامات پر بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی، سوئس بنکوں کے ذریعے سرکاری رقم خوردبرد کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا، ان کے شوہر آصف زرداری 8 سال تک کرپشن کے الزام میں جیل میں رہے۔ انیس ستمبر 1996 کو میر مرتضیٰ بھٹوکو قتل کردیا گیا۔سن 2002 میں انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، مگر وہ حکومت نہیں بناسکیں سندھ میں بھی زیادہ تر نشستیں حاصل کرنے کے باوجود حکومت نہیں بناسکیں۔ 2004ء کوآصف علی زرداری کو جیل سے رہا کردیا گیا۔ 2004ء دسمبر میں آصف زرداری کے آنے سے پانچ سال کے بعد یہ خاندان بے نظیر تینوں بچے اور شوہر یک جا ہوئے۔بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضٰی کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا۔ اسی دوران بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد ڈالی۔ اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا۔ان کی جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیشرفت اس وقت ہوئی۔ جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔دوسری پیش قدمی اس وقت ہوئی جب 28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی۔جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔

بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 150 موت کی نیند سو گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن جب اپنے بچوں (بلاول، بختاور اور آصفہ) سے ملنے دوبارہ دبئی گئیں تو ملک کے اندر جنرل مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔27 دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آرہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ اس دوران جب وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد بے نظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکا ہوا جس میں ایک خودکش حملہ آور جس نے دھماکا خیز مواد سے بھری ہوئی بیلٹ پہن رکھی تھی، خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو جس گاڑی میں سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں۔
بے نظیر کی وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت ان کے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری بھٹو کو وراثت میں سپرد کر دی گئی۔
کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کِیا لوگو
یہ کس کو تم نے سرِ دار کھو دیا لوگو
ہوائے بُغض و خباثت چلی تو اپنے ساتھ
اڑا کے لے گئی انصاف کی قبا لوگو
دیا تھا صبحِ مسرّت نے اِک چراغ ہمیں
اسی کو تم نے سرِ شام کھو دیا لوگو
سُلا دیا جسے زنداں میں تم نے موت کی نیند
جگائے گی اسے حالات کی صدا لوگو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں