جرمنی کاغیر ملکیوں کو فوج میں بھرتی کرکے مختصر مدت میں شہریت دینے کا منصوبہ

جرمن فوج میں غیر ملکی شہریوں کو بھی بھرتی کرنے پر غور
ایک سینیئر جرمن قانون ساز کا کہنا کہ ایک ممکنہ اسکیم کے تحت نہ صرف یورپی یونین کے موجودہ رکن بلکہ امیدوار ممالک کے لوگ بھی جرمن فوج میں شامل ہو سکتے ہیں، جس سے جرمن شہریت پانے کا راستہ بھی آسان ہو جائے گا۔

ایک سینیئر جرمن قانون ساز نے بتایا کہ غیر ملکی شہریوں کو بھی جرمن فوج (بنڈیشور) میں کام کرنے کی اجازت دینے کی ایک تجویز پر غور ہو رہا ہے، جس کے تحت یورپی یونین سے باہر ممالک کے یورپی باشندوں کو بھی فوج میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کی رکن میری-ایگنیس اسٹراک-زیمرمین، جو جرمن پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کی سربراہ ہیں، نے کہا کہ وہ جرمن فوج کو پورے براعظم کے امیدواروں کے لیے کھولنے کا تصور رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر ایسے امیدوار یورپی یونین کے ساتھ ہی، یورپی یونین کے سابق رکن برطانیہ جیسے ممالک اور غیر جانبدار ملک سوئٹزرلینڈ سے بھی آ سکتے ہیں۔ تاہم ان ممالک سے آگے کی بھی گنجائش ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا، ”میرے خیال میں یورپ میں بھی مزید غور کرنے کی ضرورت ہے، یعنی وہ لوگ جو یورپی ریاستوں میں تو رہ سکتے ہیں لیکن جن کا ابھی تک یورپی یونین سے تعلق نہیں ہے، تاہم وہ جو الحاق کی بات چیت کے دائرے میں ہو سکتے ہیں۔”
وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے فوج میں اہلکاروں کی شدید کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر جرمنوں کو بھی بھرتی کرنے کے لیے خوش آمدید کہنے کا خیال پیش کیا ہے
پسٹوریئس کا تعلق سوشل ڈیموکریٹس سے ہے اور ان کے اس خیال کو ان کے دو اتحادی پارٹنرز، ایف ڈی پی اور اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹک یونین میں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی بھی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔

تاہم، اس طرح کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں بہت سے سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔

اسٹریک زیمر مین نے اس حوالے سے قانون سازوں سے کہا کہ وہ ”تھوڑا جرات مندانہ نیز بڑا اور زیادہ یورپی سوچیں۔” ان کا کہنا تھا کہ ”ہم پہلے ہی سے طویل مدتی وقت کے لیے ایک یورپی فوج رکھنے کے مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ جرمن فوج فرانس اور ہالینڈ میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ قریبی تعاون پہلے سے ہی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ”اور یہی وجہ ہے کہ اگر آپ طویل مدت کے طور پر یورپی انداز میں سوچتے ہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یورپی فریم ورک کے اندر ایک فوجی کی قومیت کیا ہے۔”

اسٹریک زیمرمین نے کہا کہ یورپ سے آگے بھی جرمن فوج میں بھرتی ہونے کی صلاحیت کو ”نیٹو ممالک تک بڑھایا جا سکتا ہے” لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکہ اور کینیڈا جیسے رکن ممالک میں سیاسی پیش رفت کیا ہو گی۔

جرمن فوج (بنڈیشور) کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تجویز ”غیر ملکیوں سے خلا کو پر کرنے کے بارے میں نہیں ہے” بلکہ مسلح افواج کے مستقبل کے بارے میں پسٹوریئس کی قیادت میں ایک کھلی بحث کا حصہ ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ”یورپی یونین کے شہریوں کو مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کی اجازت دینا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ جب سرکاری سطح پر ضرورت ہوتی ہے تو فوجیوں کے لیے واقعی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
اسٹریک زیمرمین کے مطابق اگر دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں جرمن فوج میں داخل کرنے کی اجازت ملتی ہے، تو ایسے بہت سے لوگوں کے لیے بھی دروازے کھل جائیں گے، جو جرمنی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لیکن ان کے پاس جرمن شہریت نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے شہر ڈسلڈورف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہاں، ”10,000 سے زیادہ یونانی رہتے ہیں، دوسری یا تیسری نسل کے بہت سے نوجوان، جو گرچہ اتنے عرصے سے جرمنی میں ہیں، تاہم پھر بھی ان کے پاس یونانی پاسپورٹ ہے۔ شاید ملک سے لگاؤ کی وجہ سے، یا پھر کسی بھی وجہ سے، یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ ”اگر کوئی کہتا ہے کہ ‘میں اپنے آپ کو بنڈیسویر میں شامل ہونے کا تصور کر سکتا ہوں،’ تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس امکان پر غور کرنا چاہیے۔”

”اور اگر وہ فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد جرمن پاسپورٹ چاہتے ہیں، تو ہمیں اس امکان پر غور کرنا چاہیے کہ دوسروں کے مقابلے میں، وہ اسے جلد حاصل کر سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں