Gul-Bakshalvi

کشمیر الیکشن: یہ سرکس بھی پچیس جولائی کی شام تک لپٹ جائے گا۔ گل بخشالوی

آزاد کشمیر کے انتخابات میں تین بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مدِ مقابلہیں۔ مقابلے کے نتائج پچیس جولائی کو انتخابات کے بعد سامنے آئیں گے، پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بھی کشمیر میں مختلفریلیوں سے خطاب کرہے ہیں۔ لیکن اس بار جس قسم کی سیاسی گرما گرمی کشمیر کے الیکشن کے دوران دکھائی دے رہی ہے، وہاس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی ۔یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ جو سیاسی جماعت کی وفاق میں حکومت ہے وہ ہی کشمیر میں بھی حکومتبناتی ہے کیونکہ یہ خطہ خود مختار نہیں بلکہ پاکستان کے زیرِ انتظام ہے۔

  آزاد کشمیر کے انتخابی عمل میں اس بار بیانات خاصے سخت اور مہم خاصی شدت سے کی جارہی ہیں۔اس کی ایک وجہ پاکستان کاموجودہ سیاسی ماحول بھی ہے۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا بننا اور پھر علیحدہ ہونا، پارلیمنٹ میںاپوزیشن اور حکومتی ارکان کا آپس میں بھِڑنا، ان تمام تر واقعات کا اثر اور گہری چھاپ اس بار کشمیر کے الیکشن میں بھی نظرآرہے ہیں۔عام طور پر پاکستان میں عوام اور میڈیا کشمیری سیاست سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں لیکن بلاول بھٹو، مریم نواز اور کئیوفاقی وزرا کی الیکشن مہم میں شرکت سے انتخابات میں وقتی طور پر دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔

یہاں کا سیاسی نظام ایک پارلیمانی جمہوریت ہے جس کے دو ایوان ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کونسل ایوان بالا ہے جس کے پندرہرکن ہیں۔ کونسل کے آٹھ ممبرز کشمیر جبکہ چھ پاکستان سے نامزد کیے جاتے ہیں۔

ایوان زیریں کے 53 منتخب ارکان ہیں جبکہ آٹھ نشستیں خواتین، ٹیکنوکریٹ، علما اور بیرون ملک رہنے والے کشمیریوں کے لیےمخصوص ہیں۔ 53 منتخب ارکان میں بارہ پناہ گزین شامل ہیں جو پاکستان میں ہی کشمیر سے باہر مقیم ہیں۔

  آزاد کشمیر میں جاری انتخابی چھینا جھپٹی پر نگاہ کی جائے تو ایک تماشا دیکھنے کا ملتا ہے۔ ووٹر کشمیری ہے مگر ووٹ کی طلب گار تینوںبڑی جماعتیں غیر کشمیری۔ہر رہنما کی تقریر کشمیر کی آزادی سے متعلق عزم و قربانی کے رسمی جملوں سے شروع ہوتی ہے انتخابیجلسوں میں سیاسی جماعتوں نے تقاریر میں گالم گلوچ، کردار کشی کا جو سیاسی رنگ اپنایا ہے حیران کن ہے یہ تقاریر سننے کے بعدعام ووٹر کو یوں لگتا ہے کہ انتخابی مہم سیاستدان نہیں بلکہ چور اچکے ڈاکو، چچھورے لفنگے چلا رہے ہیں۔ یہ سرکس بھی پچیس جولائیکی شام تک لپٹ جائے گا اور پھر ایک دوسرے پر دھاندلی اور ووٹ چوری کے الزامات کا نیا تماشہ شروع ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں