GALI-PHIR-BHI-AMEER-KO

گالی پھر بھی امیر کو. تحریر چوہدری انور چوہان

گالی پھر بھی امیر کو

تحریر چوہدری انور چوہان
جب سے کرونا آیا ہے ہر طرف ہا ہا کار مچی ہے کہ دہاڑی دار بندے کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن ہورہا ہے پاکستان میں پہلے بیشتر آبادی غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے سوشل میڈیا نے ایسے میں ان بے آسرا لوگوں کے شب و روز کو اہل ثروت لوگوں کے سامنے رکھا تو ہمیشہ کی طرح وہ میدان عمل میں کُود پڑے انکی مدد کو مختلف رفاحی تنظیمیں بھی میدان میں آئیں مگر انکی نظریں بھی امیر اور کھاتے پیتے لوگوں کی جیبوں پر تھیں پھر کیا تھا ان لوگوں نے خزانوں کے منہ کھول دئے اس نیکی کے عمل میں شروع شروع میں سفید پوش طبقے نے بھی دل کھول کر حصہ لیا مگر اب اُس نے موجودہ حالات کی طوالت سے ہاتھ کھینچ لیاجن لوگوں نے اپنے پیٹ کاٹ کر دوکان اور مکان تعمیر کروائے تاکہ وہ ضروریات زندگی پوری کرسکیں لیکن حکومت نے مبہم سا حکم جاری کرکے کرایہ دار اور مالکان کو آپس میں لڑا دیا جبکہ مالکان سے تمام تر ٹیکسز بھی اکٹھے کئے گئے اُس میں کوئی رعائت نہ دی ایسے احکامات اُس صورت میں ہوتے ہیں اگر حکومت اسکی ادائیگی کر سکے ساری دنیا میں یہی قانون ہمارے ہاں کا بوا آدم ہی نرالا ہے ایسے میں جو اُن کے پاس جمع پونجی تھی وہ بھی تمام ہونے کو آئی جسکے بعد ضرورت مندوں کی نگاہیں ایک بار پھر حکومت اور اہل ثروت کی طرف اُٹھ گئیں حکومت نے تو پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر دئے اسی پر بس نہیں کی بلکہ عوام سے چندے اور خیرات کی درخواست کر دی اس کارِ خیر میں بھی پیسے والوں نے حصہ لیا ایسے میں اوورسیز سے بھی درخواست کی گئی کرونا کی وبا نے صرف پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اوورسیز نے ہمیشہ اپنی جنم بھومی کے لوگوں کو کبھی مایوس نہیں کیا اس بار وہ خود غیر یقینی حالات کا شکار ہیں ۔
حکومت شروع دن سے ہی لاک ڈاؤن کے حوالے سے ہی گو مگو کا شکار رہی ہے جس سے تمام تر کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے اب اگر رعایت دی ہے تو صرف چھوٹے تاجروں اور دوکانداروں کو جبکہ بڑے کاروباری اداروں پر پابندی برقرار رکھی نتیجہ یہ نکلا جس دوکان میں دس افراد کے ہیٹھنے کی جگہ تھی وہاں پچاس لوگ آگئے اور حکومتی ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا اگر شاپنگ مالز کو بھی اجازت دی جاتی تو یہ رش تقسیم ہوسکتا تھا بڑے مالز میں جگہ بھی زیادہ ہوتی ہے اور وہ حکومتی ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے پر بھی قدرت رکھتے ہیں وہ اپنے مالز اور شاپنگ سینٹرز کے باہر سینٹائزر ، ماسکس اور گلوز بھی فراہم کر سکتے ہیں ۔شاید ان لوگوں سے مدد کی توقع ہر کوئی رکھتا ہے مگر انکے مسائل سے کسی کو سروکار نہیں کیا کبھی سوچا کہ انکے پاس سیلز مینوں اور حفاظتی عملے کی صورت میں ایک بڑی تعدا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی ہے وہ کب تک اُنکو پلے سے اُنکی اُجرتیں ادا کریں گے غریب دوکانداروں کو تو مالکان کرائے معاف کر سکتے ہیں مگر ان لوگوں سے تو کسی کو ہمدردی نہیں کیا کھاتے پیتے کھرا نے سے تعلق ہونا ہمارے ہاں جُرم ہے اُوپر سے ہر محکمے کو اپنی جیبیں بھرنے کے لئے حکومت نے انکے پیچھے لگا رکھا ہے اگر لب سڑک عام دوکانوں کے کرائے ہزاروں میں ہیں تو انکے کرائے تو لاکھوں میں ہیں جبکہ عملے کی تنخواہوں کا حساب بھی لگا لیں کیا پیسے کی فراوانی ہونا جُرم ہے انکے لئے آواز اُٹھانے کو کوئی بھی تیار نہیں یاد رکھیں بدحالی اور بیٹھ کر کھانے سے قارون کے خزانے بھی ایک دن ختم ہوجاتے ہیں اگر حکومت نے ان لوگوں کے مسائل پر توجہ نہ دی تو ایک دن وہ بھی آئے گا جب ضرورتمندوں کی حاجت روائی سے یہ لوگ بھی ہاتھ اُٹھا لیں گے اس سے صرف غریب ہی نہیں حکومت بھی متاثر ہوگی جسکا تمام تر انحصار ان لوگوں کی دولت پر ہے ایسے میں ہمارا میڈیا بھی غریبوں کے ذہنوں میں امیروں کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں پیش پیش ہے اس تصادم میں سفید پوش طبقہ ویسے ہی ناپید ہوجائے گا ، کیا کبھی آپ نے سوچنے کی زحمت کی جب بھی دنیا میں آفات آئیں خواہ وہ سیلاب ،زلزلہ ، سونامی یا طوفان کی صُورت میں ہوں امیر اور غریب دونوں کے دل پسیجے مگر عملی طور پر پیسےوالوں نے دنیا کو ان بحرانوں سی نکالا کتنے خیراتی ہسپتال ہیں جو عام آدمی کی جان بچانے میں مصروف ہیں جو صرف پیسے سے چلتے ہیں وہ الله کی ذات ہے جو ان پیسے والوں کے دلوں میں رحم پیدا کرتی ہے اور وہ خلق خُدا کی خدمت کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں بد قسمتی سے شاید ہمارا بسیرا ایک ایسی بستی میں ہے جہاں غریب غریب کا دشمن اور امیر کو گالی دینا فرض ِعین سمجھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں