Gul-Bakshalvi

کوئی فوج کو گالی دے ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے ان کیمرہ اجلاس کچھ خاص باتیں سننے میں آرہی ہیں جو قابل غور ہیں لیکن ہم شعور کی اندھی قوم صرف ان ہی باتوں کو سچ اور حقائق پر مبنی سمجھتے ہیں جو قوم کے اقتدار پسند کہتے ہیں اور ہم تالیاں بجاتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری اور عسکری قیادت کی ان باتوں پے غور کی ضرورت ہے اس وقت جب ضمیر جاگ رہاہو
بلاول زرداری نے عسکری قیادت سے مطالبہ کیا کہ نے علی وزیر کے لئے کچھ سوچیں تو عسکری قیادت نے جواب دیا کہ ہم روزانہ سرحدوں سے شہداءکی لاشیں اٹھاتے ہیں۔آپ بے شک ہمیں گالی دے دیں، ہم برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں لیکن کوئی فوج کو گالی دے ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے۔ آپ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں،آپ حکومت سے بات کریں اور علی وزیر کے لیے رعایت لے لیں لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو علی وزیر وہیں کھڑے ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور فوج سے معافی مانگے جہاں اس نے فوجی جوانوں کے بارے میں غلط الفاظ کہے تھے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے آرمی چیف سے کہا ”آپ ن لیگ پر ہتھ ہولا رکھیں” جس پرآرمی چیف کا جواب تھا” ہم اسٹیٹ کے نمائندے ہیں، ہم ہر وزیراعظم کا ساتھ دیتے ہیں، ہم میاں نواز شریف کے احکامات بھی مانتے تھے اور شاہد خاقان عباسی کے بھی اور آج عمران خان وزیراعظم ہیں، ہم ان کے ساتھ بھی ہیں”۔انہوں نے کہا کہ ”کل کوئی اور ہوگا تو ہم اس کے ساتھ بھی ہوں گے، ہمارا رول بس اتنا ہے” میٹنگ میں موجود ایک خاتون ممبر نے بتایا ”میں جنرلز کی تیاری اور ہوم ورک پر حیران رہ گئی جب کہ ہماری ساری سیاسی لیڈر شپ بے ربط اور لایعنی گفتگو کرتی رہی، میڈیا ذرائع نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اجلاس میں ہر سوال کا جواب مدلل اور حوالے کے ساتھ دیا۔
افغانستان سے متعلق آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل بابر افتخار کہتے ہیں کہ افغان بحران کا فیصلہ بندوق سے نہیں مذاکرات سے ہو گا اگر بیس سال میں بندوق سے فیصلہ نہ ہو سکا تو آئندہ کیسے ہو گا افغانیوں نے اپنے معاملات اور اپنی قیادت کا فیصلہ خود کرنا ہے ہم سہو لت کار ہیں ضامن نہیں ہم معانت کر سکتے ہیں لیکن افغانستان کے مستقبل کو افغانی خود سوچیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں