Masjid-e-Nabvi

مجموعہ حمد و نعت . مرا قبیلہ محمدی ہے. پروفیسر مامون ایمن (امریکہ)

پروفیسر مامون ایمن (امریکہ) نے مجموعہ حمد ونعت سے متعلق کمال کا تبصرہ کیا ہے آپ محتر م نے مجموعہ میں شامل حمد و نعت کے ہر مصرعے کو ایسی خوبصورتی سے نثر کے گلدستے میں پھرویا ہے کہ پڑھتے ہوئے لطف آتا ہے ، ماموں ایمن صاحب نے لفاظی کا سہارا نہیں لیا بلکہ مجموعہ میں شامل حمد و نعت کے اشعار کو کمال خو بصورتی سے نثر میں لکھا ہے (گل بخشالوی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرا قبیلہ محمدی ہے ، میں تین اصناف سخن شامل ہیں ۔حمد ،نعت اور منقبت ۔شاعر سبحان الدین گل المعروف گل بخشالوی نے ان تینوں اصناف کو عقیدت ،توصیف اور اعتراف سے سجانے کی پرخلوص سعی زبان اور متون کی آئینہ دار ہے ۔اس آئینہ داری میں نسبتوں کی طرح داری ہے یہ طرح داری قرابت کی پیاسی بھی ہے اور خواہاں بھی ۔یوں کہےے کہ یہ طرح داری اس مجموعہ کا انسلا کی عنصر ہے اس عنصر کے اساسی الفاظ ہیں ۔عطاءکرم،سجدہ ،فردوس ،بخشش اُمتی ۔گلستانِ نعت کی زبان واضح اور صاف ہے اس میں اضافتی تراکیب شامل ہیں ۔مثلاً وقت ِنزع ،سد باب،کلامِ محمدﷺ،محبوب جاں،نگاہِ عشق،عالم مستی ،عشق ِمحمدﷺ،شب معراج،عظمت ِتقدیر،شب ِحیات،شعاعِ مہہ ،ان اضافتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔جمالِ فطرت،نور ِکعبہ،باغِ جنت ،ان سہ لفظی اضافتی تراکیب میں اعتراف کی جھلک ہے ۔رحمت ِنورِ مجسم،بارش ِابرِکرم،چمن ،بارش اور گل کے پس منظر میں ،ذراخود سپردگی کا یہ منظر ملاحظہ کیجئے ۔
آپ کردیں چمن دل پہ کرم کی بارش
شاہِ کونین یہ گل آپ ﷺکاشیدائی ہے
شاہِ کونین درحقیقت شاہ نہیں کہ وہ شاہ ہونے کے باوجود خود کو دنیا خالقِ مطلق کے سامنے سادگی اور انکساری کا ایک مثالی نمونہ بناتا ہے وہ سادگی اور انکساری سے پیام اسلام کی راہ استوار کرتا ہے ۔وہ حاکم ہونے کے باوجود خود کو ایک بشر جانتا اور مانتا ہے ۔وہ خاک ہونے کے باوجود پرنور سے برتر ہے اس کی ذات کو انسانیت میں اوّلیت کا درجہ حاصل ہے اس پیارے محمدﷺکی عظمت کایہ عالم ہے کہ خالق ومخلوق ،رب اور بندے اس پر درود وسلام بھیجتے ہیں ۔بے شک وہ ذات اقدس کسی شبہ ،کسی جھجک کے بغیر ہر آن درودوسلام کی مستحق ہے ۔یہی اعتراف گل سے مزید کہلواتا ہے میں خوش قسمت ہوں کہ آپ کی اُمت میں سے ہوں میں آپ ﷺکا اُمتی ہوں ۔اس اعتراف میں وہ اپنی ایک تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے ۔اے کاش!روز ِحشر مجھے آپﷺکی شفاعت ملے ۔
مرا قبیلہ محمدی ہے میں متون گنجلک نہیں وہ براہِ راست سامنے آتے ہیں اور اپنے وجود کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔وہ گل کی شخصیت کے پاس دار بھی ہیں اور ترجمان بھی مثلاً رب اُس کی ہر ضرورت ہے تو وہ اس سے کوئی چیز کیوں مانگے ،نظرِ لطف کی خاطر وہ اپنا سرسجد ہ میں رکھنے کا متمنی ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ بوقت ِنزع اس کے لب پر احمدﷺکا نام ہو ،وہ رب کی بندہ نوازی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بے حساب خطاکاری کامرتکب ہونا چاہتا ہے ۔وہ اس توفیق کا خواہاں ہے جس سے وہ اپنی ہر سد ِباب کر سکے اس کا دل بذاتِ خود ایک کعبہ ہے جس میں وہ اپنے رب کا جلوہ دیکھتا ہے وہ ظلمت ِدہر سے اس لےے نہیں گھبراتا کہ اُس کے دل میں محمدﷺکادیاہے ۔وہ مدینہ میں موت کا خواہاں ہے ۔اُس کی آنکھ نم ہوتی ہے تو وہ فردوس کا دیدار کر لیتا ہے وہ محمدﷺکا حوالہ دے کر اپنے ضمیر کو ملت کی دوستی سے ہمکنار کرنے کا دعا گو ہے ۔وہ اللہ سے محبوب کا سایہ مانگتا ہے ۔اُس کے ذہن میں پیغام نبیﷺسے توحید ِرب کی وضاحت ہوتی ہے اُس کے خون میں آب ِزم زم ہے وہ ایک مسافر بھی اور ایک گداگر بھی ،حجرِاسود کے تصور سے اس کے دل میں گلشن ایمان مہکنے لگتا ہے ۔حرم میں عالم مستی کا سجدہ اس کا یقین شاداب کرتا ہے اس کے نزدیک شانِ نبوتﷺ یہ ہے کہ رسول ﷺکی سیرت اور صورت دلنشین ہیں اُسے معلوم ہے کہ رسولﷺپاک نے رنگ وزباں کی سب فصیلیں توڑ کر دین کی باہوں کو قوت بخشی تھی ۔بہ حیثیت اُمتی وہ اپنی تقدیر کی عظمت سے واقف ہے وہ شاہ میں سادگی کا جمال دیکھتا ہے ۔
مرے نبیﷺ کی حیات رحمت،اُسی کے دم سے ہیں شان وشوکت
وہ شاہِ ارض وسما تھے پھر بھی ،جمیل اُن کی وہ سادگی ہے
اسی نعت کے اس شعر میں صفت ِ مشیہ (نفیس،جمیل،بروزن فصیل) اور تفضیل (اقدس،اطہر،بروزن افعل)کا امتزاج ملاحظہ کیجئے
نفیس اُن کی حیات ہے گل جمیل اُن کا کلام اقدس
وجودِ اطہر کا ہے نہ سایہ،یہی توفطرت کی شاعری ہے اس شعر میں لفظ”شاعری“کو مروّج معنی سے الگ کیجئے اور اسے ”آگاہی“سے منسوب کیجئے تو ”فطرت کی شاعری“کا مطلب بھی واضح ہوجائے گا اور مفہوم بھی ہمارے رب نے رسول پاکﷺکے درود مبارک سے ہمارے دل ودماغ کو حقیقت ِذات سے آگاہ ہونے کا اہتمام کیا ہے ۔حقیقت ِذات سے آگاہی ہمیں باور کراتی ہے کہ ہم اُس رب کی مخلوق ہیں جس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ کوئی ثانی ،اسلام دین ِحق ہے ۔محمدﷺاس دین کی پیغام بر ہیں ۔بلاشبہ ہماری زندگی رضائے رب کی عطا ہے ہم بندے ہیں اور اُس کی جانب
لوٹ جانے والے ہیں ۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے رسولﷺنے ہمیں حقیقت ِذات سے آگاہ کرایا اس شعر میں گل نے لفظ”شاعری“کو ایک مجرد انداز سے پیش کیا ہے ۔
گلستانِ نعتﷺمیں بحروں کا تنوع نظر آتا ہے مثلاًمحبتث،رمل،ہزج،مضارع اور متارب وغیرہ ہم،اس ضمن میں یہ نمائندہ مطلع ملاحظہ کیجئے ۔
میرا نبیﷺہے جہاں کی رونق،جہاں کی رونق مرانبیﷺ ہے
یہ سبزگنبد،یہ نورکعبہ،یہ سب اُسی کی تو روشنی ہے
صنف ِنعت کے عنوانات اور متون متعین ہیں بجا لیکن یہ صنف ،عقیدت ،جذب اور سپردگی کی ایک جھیل ہے جسے ہر موسم مزید گہرائی سے ہمکنار کرتا ہے ۔یہ سلسلہ تقریباً ساڑھے چودہ سوسال سے جاری وساری ہے ہر شاعر کے کلام میں متعین متون بدل کر نئے زاویوں اور رنگوں سے سجے نظر آسکتے ہیں ،نظر آتے ہیں ۔گاہے نئے زاویے اور رنگ عیاں ہیں اور گہے پنہاں گاہے وہ قاری کے سامنے ان متون میں وضاحت کے دفتر کھولتے ہیں اور گہے چونکا دینے والے انداز پر تحسین وداد کا تقاضا کرتے ہیں ۔گل کی کاوشات میں بھی یہ روش نظرآتی ہے مثلاً نزع کے وقت گل کے لب پہ احمدﷺکا نام ہو اور حشر کے روز وہ اُن کو بیش تر دیکھے ۔گل رب العزت سے اس توفیق کا خواہاں ہے جو اسے اپنی ہر برائی روکنے کی استطاعت عطا کرے ۔یہ حمد کے متون ہیں نعت کے ضمن میں ملاحظہ کیجئے ۔مدینہ سے آنے والی خوشبو فضا میں کھیلتی ہے جو دنیا میں ہنسنے جینے کا حسن ہے ۔اے مصطفےٰﷺ!میری ایک ہی خواہش ہے کہ اس جہان سے میری رخصت حرم کے زینے سے ہو ۔اس سادہ سی خواہش کا تجزیہ کیجئے ۔شاعر اپنی سادگی کو بے پایاں خلوص کی مدد سے مدینہ اور مکہ یکجا کرنے کا متمنی ہے کہ اس کی موت ۔ان دونوں مقامات کی برکات سے معمور ہو ۔
بس اب تو ایک ہی خواہش ہے مصطفےٰﷺ میری
جہاں سے ہو مری رخصت حرم کے زینے میں
بلاشبہ گل کا یہ اعلان صنف ِنعت سے نسبت کا مظہر ہے
آپﷺ کی حکمت ودانش کا ہے یہ بھی اعجاز
میرے جذبات میں جو قوت ِگویائی ہے
گل صاحب!تحریر” مرا قبیلہ محمدی ہے “کی سعادت پر مبارک باد قبول کیجئے ۔
شانِ رسالتﷺ
الفاظ کو جذبوں میں سمویابے شک
اخلاص سے دامن کو بھگویا بے شک
قدرت کی عطاہے کہ گل نے ایمن!
اک خواب حقیقت میں پرویا بے شک

ہر موڑ کو رستے سے نکالا بے شک
ہرکام کو اُسوہ سے سنبھالا بے شک
یہ خاص کرم رب کا ہے گل نے ایمن!
تقدیر کو مذہب سے اُجالا بے شک

مامون ایمن (نیو یارک)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں