فرخ مجید- تحریر۔نصراللہ چوھدری۔

غربت بے روز گاری ۔عوام کے حقوق اور کھاریاں شہر کے مسائل کے حل کے لیے لڑنے والا فرخ مجید کرونا بیماری سے لڑتے ھوئے زندگی کی بازی ھار گیا ۔
اور اپنے بے شمار چاھنے والوں دوستوں ۔عزیزوں ۔رشتہ داروں کو روتا چھوڑ کر منوں مٹی کے نیچے چلا گیا
۔فرخ مجید ایک ایسا منفرد نام تھا جس نے اپنا نام اپنی وفاداری محنت جہدوجہد اور بردباری سے پیدا کیا ۔میں سمجھتا ھوں۔
کہ ان کا دنیا سے کوچ کر جانے کا اگرچہ بے پناہ دوکھ ان کے اھل خانہ کو ضرورھوا ھے
۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھاریاں شہر کے غریبوں مساکین اور ان لوگوں کو بھی ھوا ھے۔ جن کے ساتھ فرخ مجید کندھے سے کندھا ملا کر چلتا تھا۔
کھاریاں کے ایسے سینکڑوں لوگ ھیں جن کے گھر کا چولہا فرخ مجید کی وجہ سے جل رھا تھا
۔ان کے کے لیے فرخ مجید اندھیرے میں روشنی کی امید تھا اج فرخ مجید اپنےان چاھنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر جارھا ھے ۔
لیکن اچھے نیک مخلص لوگوں کے بارے میں اکثر کہا جاتا ھے اگے بھی ان کی ضرورت ھوتی ھے فرخ مجید کی ذندگی سے بہت سے لوگوں کی خوبصورت یادیں جڑی ھوئئ ھیں ۔
جو بھلانے سے بھی شاھد بھلائئ نہ جاسکیں ۔ھر ایک کو دعوی ھے کہ جو میرا فرخ سے تعلق تھا شاھد کسی دوسرے سے نہ ھوگا لیکن اس کی یہی خوبی اسے دوسروں سے منفرد کرتی تھی۔
ھر ایک کی انکھوں میں خوشیاں دیکھنے والا اج لوگوں کی انکھوں میں انسوں کی جھڑی لگا کر جارھا ھے۔
ایسا شفیق انسان مدتوں بعد پیدا ھوتا ھے جس کی زات سے ھر ایک کو فائدہ ھی حاصل ھوا ھو
ایسا پازیٹو سوچ رکھنے والا جس نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر عوام کے دوکھ درد کا مداوا کیا ھو کہاں ملے گا۔
ایسا مسیحا لوگوں کو مشکل سے ھی ملے گا جو ان کے دوکھ درد کو اپنا سمھتا تھا اپنا ھو یا غیر فرخ مجید کی محبت سب کے لیے یکساں ھوتی تھی ۔
میرے ساتھ اور بھی بے شمار اوورسیز بھائیوں کو اس بات کا افسوس رھے گا کہ فرخ مجید کی زندگی کے اخری لمحات ھم ان کے ساتھ نہ گزار سکے۔
۔کھاریاں کے شہری اس بات کے گواہ ھیں کہ جس کے ساتھ کوئئ نہیں چلتا تھا اس کے لیے امید کی اخری کرن فرخ مجید ھوا کرتا تھا۔
جس غریب کے پاس دوائئ لینے کے لیے پیسے نہیں ھوتے تھے وہ فرخ مجید کی طرف بھاگتا تھا۔ بہت سے گلیانہ روڈ کے میڈیکل سٹور ھیں جن کے لاکھوں کے بل وہ اپنی جیب سے ادا کرتا تھا ۔
ایسا شفیق انسان ان غریبوں کو کہاں سے ملے گا۔
ایسا مسیحا ان کو شاھد چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نیہں ملے گا۔ جو ان کا اچھے برے وقت کا ساتھی تھا
*ڈھونڈوں گے اگر ملکوں ملکوں*
*ملنے کے نیہں نایاب ھیں ھم۔*
اج ا ھوں سسکیوں میں فر خ مجید کو الودع کیا جارھا ھے تو وہ شعر یا اگیا ھے کہ۔۔
*دنیا اوئتھے رکھ فقیراں ایسا بین کھلون۔*
*تو ھوئئئے تے ھسن سارے ٹر جاویں تے رون*
بے شک۔
اج اگرچہ فرخ مجید کے بعد خدمت عمل اور بے لوث خدمت کرنے والےانسان سے ھم محروم ھورھے ھیں۔
خدمت رواداری کا ایک باپ بند ھو رھا ھے تو کہتے ھیں نا کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
ھم نہ ھونگے تو کوئئ ھم سا ھو گا ۔

دنیا اسی امید پر قائم ھے اللہ تعالی فرخ مجید پر اپنی بے شمار رحمتوں کی بارش برسائے اور اس کے لواحقین اور چاھنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
*انکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ھمیں یاد بہت ائے گا*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں