Shoukat-Ali

اور پھر وہ قانون کا نفاذ بھول گیا۔ تحریرشوکت علی

ہم انتہائی مختصر بارات کے ساتھ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے۔ یہ بارات کورونا وبا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے صرف اٹھارہ افراد پر مشتمل تھی جس میں بچے اور تینوں گاڑیوں کے ڈرائیور شامل تھے۔ اگرچہ دولہن کے والد نے ایک فارم ہاؤس ڈھونڈ نکالا تھا جہاں ایک سو بیس افراد کی گنجائش موجود تھی اور ایک بریگیڈئیر صاحب کی گارنٹی بھی دی گئی تھی کہ پولیس ادھر نہیں آے گی۔ اس گارنٹی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ وطنِ عزیز میں قانون کا اطلاق کسی با اثر یا طاقتور فرد پر نہیں ہوتا اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی جرات نہیں کہ اس کے گھر کا رُخ بھی کر سکیں۔ بہر حال ہم نے اس آفر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ہمیں شادی کے فنکشن پر کسی کے اثر و رسوخ کے کندھوں پر رکھ کر قانون شکنی کی بندوق سے فائرنگ قطعا منظور نہیں تھی۔ یہ شادی آٹھ اپریل کو طے پائی تھی جبکہ اسلام آباد میں یکم اپریل سے شادی بیاہ اور دیگر اجتماعات پر پابندی عائد کی جا چکی تھی۔ اگرچہ پنجاب میں یہ پابندی پانچ اپریل سے لگائی گئی تھی لیکن جہلم میں پانچ اپریل کے بعد بھی شادی کے ایک آدھ اجتماعات کی خبریں سنیں اور میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ ہم قانون کو مذاق اور اس پر عمل کرنے والے کو بیوقوف سمجھتے ہیں جبکہ قانون کے پرخچے اڑانے کے بعد ہم اکثر اپنے تعلقات اور اپروچ کے قصیدے سناتے نظر آتے ہیں۔ اب چونکہ اس قصے میں ایک بریگیڈئیر صاحب کا ذکر آ گیا ہے تو لوگ قانون کی بالا دستی کے اصولی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے فوجی اشرافیہ کے حق میں اور راقم الحروف پر تنقید کرنے نکل کھڑے ہونگے لیکن بے فکر رہیں جناب قانون کو گھر کی باندی سمجھنے کے گناہ میں ہر کوئی شریک ہے۔ یہاں کوئی بھی کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے کا حق کھو چکا ہے کیونکہ قانون سے کھلواڑ کے گناہ میں ہر کسی نے اپنی حثیت کے مطابق حصہ ڈالا ہے اور ڈال رہا ہے۔ بات ہو رہی تھی بارات کے اسلام آباد میں داخل ہونے کی جو کہ دو کاروں اور ایک بڑی وین پر مشتمل تھی۔ ٹی چوک پر بڑی وین کو ٹریفک پولیس نے روک لیا۔ جس کار میں میں سوار تھا وہ بھی ڈرائیور نے تھوڑی آگے جا کر روک دی کہ ہمیں بڑی وین کو ساتھ لیکر جانا تھا جبکہ دولہا اپنی گاڑی میں ایف نائن پارک کی طرف روانہ ہوچکا تھا اسے وہاں دولہن کے ساتھ تصویریں بنوانا تھیں۔ جب مجھے اپنی گاڑی میں انتظار کرتے ہوۓ دس پندرہ منٹ گزر گے تو میں صورتحال جاننے کے لیے گاڑی سے باہر نکلا اور چلتا ہوا وہاں پہنچا جہاں ٹریفک پولیس کا اہلکار اور بڑی وین کے ڈرائیور کے ساتھ میری گاڑی کا ڈرائیور اور میرے بڑے بھائی بھی کھڑے تھے۔ ٹریفک پولیس کا اصرار تھا کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں ہے اور دوسرا گاڑی کے شیشے بھی کالے ہیں۔ بڑی وین چونکہ نئی خریدی گئی تھی اس لیے اس پر ابھی تک نمبر پلیٹ نہیں لگی تھی جبکہ اس کے لیے درخواست دی جا چکی تھی اور نمبر پلیٹ کی جگہ “اپلائیڈ فار ۲۰۲۱” کی پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ پاکستان میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لوگ اپنی نئی گاڑیوں میں اپلائیڈ فار کی پلیٹ کے ساتھ گاڑیوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں اور یہی بات وین کے ڈرائیور نے ٹریفک پولیس والے سے بھی کہی جبکہ گاڑی کے کالے شیشوں کے متعلق اسکا کہنا تھا کہ انھوں نے کالے شیشے لگاۓ ہی نہیں بلکہ جب نئی گاڑی خریدی گئی تو یہ گاڑی میں پہلے سے لگے ہوۓ تھے۔ اس تمام صورتحال میں جو سوال میرے ذہن میں اٹھے جو عقل سلیم کے عین مطابق تھے اور جن کے لیے آپکو ماہرِ قانون ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ سوالات میں نے ٹریفک پولیس والے سے پوچھ ڈالے کہ جناب “اگر بغیر نمبر پلیٹ کے کسی گاڑی کا سڑک پر آنا خلافِ قانون ہے تو گاڑی خریدنے والے کو گاڑی دی ہی کیوں جاتی ہے۔ اب کوئی نئی گاڑی خرید کر اسے گھر میں تو لا کھڑا نہیں کرے گا کہ جب تک نمبر پلیٹ کا اجرا نہیں ہوتا وہ اسے گھر میں ہی کھڑا رکھے۔ اسکے لیے گاڑیوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کو اس بات کا پابند کیوں نہیں کر دیا جاتا کہ وہ گاڑی اسوقت تک خریدار کے حوالے نہیں کریں گے جب تک گاڑی کو نمبر پلیٹ نہیں لگ جاتی اور دوسری بات کہ اگر کالے شیشے غیر قانونی ہیں تو گاڑیوں کے ڈیلر نے گاہک کو ایک ایسی چیز بیچی جسکی حثیت غیر قانونی تھی تو کیا قانون کو اس گاڑیوں کے ڈیلر پر بھی ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے؟” یہ سوال سننے کے بعد اس ٹریفک پولیس والے نے میری طرف دیکھا اور میرے لباس سے وہ مجھے کوئی ڈاکٹر یا وکیل سمجھ بیٹھا۔ میرے سوال کا جواب دینے کی بجاۓ اسنے الٹا مجھ پر سوال داغ ڈالا اور پوچھنے لگا “آپکا شعبہ کیا ہے؟” میں نے جواب دیا کہ یہ سوال ہی غیر ضروری ہے کہ میرا شعبہ کیا ہے، میں نے آپ سے ایک سوال کیا ہے اور یہ سوال کسی کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے اس کے لیے کسی مخصوص شعبے سے ہونا ضروری نہیں۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ “آپ مجھے قانون پڑھانے کی کوشش نہ کریں میں یہاں قانون نافذ کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں اور وہی کر رہا ہوں۔” اسکی یہ بات میرے لیے خوش کن تھی کہ وہ قانون کے نفاذ کی کوشش کر رہا ہے لیکن میرا سوال ابھی بھی جواب طلب تھا۔ میں نے پھر عرض کیا “ میں آپکو قانون نہیں سکھا رہا بلکہ قانون سے متعلق ایک سوال پوچھ رہا ہوں۔” میرے بڑے بھائی اور وین کے ڈرائیور نے مجھے اصرار کیا کہ میں واپس گاڑی میں جا کر بیٹھوں وہ مسلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے لیے یہ بات ناقابلِ فہم تھی کہ اگر وین کی حالت غیر قانونی ہے تو یہ اسے جانے کی اجازت نہیں دے گا یا پھر کم از کم جرمانہ تو ضرور دے گا تاکہ گاڑی مالکان پھر کسی جرمانے سے بچنے کے لیے جلد از جلد گاڑی کی شکل و صورت قانون کے سانچے میں ڈھال دیں یعنی اس پر نمبر پلیٹ بھی لگوایں اور کالے شیشے بھی اتار دیں۔ میرے بڑے بھائی اور وین کا ڈرائیور اس ٹریفک پولیس کے اہلکار کو سمجھانے لگے کہ آپ اسکی باتوں کا برا مت مانیں یہ باہر سے آے ہوۓ ہیں۔ میں اسکے بعد واپس اپنی کار میں آ بیٹھا تو تھوڑی دیر کے بعد پتہ چلا کہ گاڑی کو جانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور کوئی جرمانہ بھی نہیں دیا گیا کیونکہ وین کے ڈرائیور کا کوئی جاننے والا اسلام آباد پولیس میں کسی پوسٹ پر تھا۔ وین ڈرائیور نے اسے فون کیا اور پھر ساری صورتحال بدل گئی وہی ٹریفک پولیس والا جو وہاں قانون نافذ کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا وہ قانون کے نفاذ کو بھول کر وین ڈرائیور اور بڑے بھائی کو کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ قانون کا نفاذ قانون نافذ کرنے والے کو بھول چکا تھا اور بارات اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں