Gul-Bakhshalvi

آخر ہم عام لوگ کب تک خاص لوگوں کے غلام رہیں گے ۔ گل بخشالوی

  پاک سر زمین کے ہم باشندے دین مصطفٰے کے علمبردار، ختمِ نبوت کے پہرے دار، پاکستان کے وفادار ہیں۔ وطنِ عزیز میں قصور زندگی سے محبت اور آخرت پر ایما ن رکھنے والے ہم عام شہریوں کا نہیں ہے، قصور وار ہیں تو نام نہاد سیاست دانوں، پڑھے لکھے جاہلوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا جنہوں نے وطن دوستی اور مذہب کے لبادے میں پوری قوم کو زندگی کے عذاب سے دوچار کر رکھا ہے یہ لوگ ذاتی مفادات کے لئے ہم محبتوں کے امین دین اور وطن پرستوں کا خون کرتے ہیں یہ لوگ ہمارے نظریاتی اور مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں ہمیں ہماری پیاری جانوں کا خون کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہم عام لوگ انہی کی سوچ سوچتے ہیں اپنی سوچ کو سوچنے کی زحمت نہیں دیتے ہم اپنے وجود سے نکل کر شیطانی وجود میں داخل ہو کر اپنے ہی عاشقانِ رسول اپنے ہی وطن پرستوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں اپنے ہی گھر کو آگ لگا دیتے ہیں قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک نہ تو ہم نے دین کو سوچا نہ وطن کو سوچا اگر سوچا ہے تو خود پرست سیاست دانوں ضمیر فروش عالمان دین کو سوچا ہے ،ہم ان ہی کے گیت گاتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے دیس کو لوٹتے ہیں ان ہی پر پھو ل برساتے ہیں جو ہمیں اپنے بھائیوں پر پتھر برسانے کی ترغیب دیتے ہیں اس لئے کہ ہم بے شعور لکیر کے فقیر دین اور وطن کے نہیں شخصیت پرست ہیں!

آج اگر عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے سر جوڑے بیٹھے ہیں وہ کو ن لوگ ہیں کیا پاکستان کے عوام ان کو نہیں سوچتے کیا گذشتہ کل وہ ہمارے حکمران نہیں تھے اگر تھے تو کیا یہ تماشہ جو آج لگائے ہوئے ہیں کل نہیں لگا تھا کیا گذشتہ کل کے حکمران مومن تھے کیا ان کے دور میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں اگر یہ سچ ہے تو ان کو تخت شاہ ہی سے اتارنے کی ضرورت کیا تھی، لیکن انہیں محب ِ وطن عوام نے اس لئے اتارا کہ یہ مردہ ضمیر چور ڈاکو لٹیرے اور وطن فروش تھے اگر یہ سچ ہے تو آج پھر سے ان کے گیت کیوں گا رہے ہیں جو سرعام پاکستان ، افواج ، پاکستان اور عدلیہ کی تو ہین کر رہے ہیں سر عام دھمکیاں دے رہے ہیں ان کی درباری خواتین طوائف زادیوں کی زبان بول رہی ہیں ،لیکن ان کے خلاف قانون خاموش ہے، سپریم کورٹ کے کان بند آنکھوں پر کالی پٹی باندھ رکھی ہے افواجِ پاکستان خاموش تماشائی ہے ۔ یہ لوگ جس کا کھا رہے ہیں اسی پر تھوک رہے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ اب بھی وقت ہے قوم پرست اور دینِ مصطفٰی کے شیدائی جان لیں کہ جب تک ہم عام شہری اپنی سو چ تبدیل نہیں کریں گے کوئی تبدیلی نہیں آئیگی جو ہم سے پہلے بویا گیا وہ ہم کاٹ رہے ہیں جو ہم بوئیں گے وہ آنے والی نسل کا ٹیں گی اوریہ سلسلہ نسل در نسل چلے گا ہم عام لوگ آزادی کے باوجود ان خاص لوگوں گے غلام رہیں گے ۔ اس لئے کہ اگر آج ہمیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے تو ہمیں گذشتہ ستر سال کی اگر کرپشن بھی تونظر نہیں آئی،!!

پنجاب کے شہر لاہور کے مصروف ترین کاروباری مرکز ملتان روڈ پر یتیم خانہ چوک کے نزدیک بیڑی سٹاپ کہلائے جانے والے مقام پر کالعدم قرار دی گئی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی مرکزی مسجد رحمت العالمین پر دیا گیا دھرنا ڈیڑھ سو گھنٹوں یعنی چھ روز سے جاری تھا جو مسجد کے باہر سے شروع ہوا اور قانو ن کے حرکت میں آنے کے بعد ٹی ایل پی کے کارکنان نے مسجد کے تینوں اطراف میں ایک کلو میٹر کا علاقہ مختلف رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کردیا۔تحریک ِ لبیک کی قیادت کی طرف سے دی گئی کال کے تناظر میں اس تنظیم کے خلاف کارروائی کا فیصلہ 12 اپریل 2021 کو کیا گیا تو سب سے زیادہ ردعمل لاہور میں آیا تاہم ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے ذرائع کے مطابق 13 اپریل کو وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اسلام آباد میں ملاقات کی اور ساری صورتحال کے تناظر میں وزیرداخلہ شیخ رشید کو بتایا گیا کہ اس تنظیم پر پابندی کا اعلان کردیا جائے جو اگلے روز ہوا اور 15 اپریل کو پابندی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔لیکن تحریک لبیک نے دھر نا جاری رکھا، پولیس کے ترجمان کے مطابق ‘رینجرز کے دو جوانوں سمیت ٹی ایل پی کے مظاہرین نے 12 پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے کے بعد یرغمال بنا رکھا تھا جن کی رہائی کے لئے اپریشن کیا گیا اور ایک اور افسوسناک سانحہ پیش آ یا جسےعمران دشمن سیاسی اور مذہبی قوتیں کیش کرنے لگی ہیں ۔ لیکن جانے یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سابقہ ادوار ِ حکمرانیوں میں بھی ایسے سانحا ت سے قوم دوچار ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں بگٹی قبیلے اور اسلا م آباد میں لال مسجد کے خلاف کاروائی میں کیا کچھ نہیں ہوا، وزیر ِ اعلیٰ شہباز شریف کے دور ِ اقتدار میں سانحہ ماڈل ٹاﺅ ن میں مظاہر ین پر گولیوں کی برسات ہوئی نواز شریف کے دور ِ اقتدار میں بے نظیر کے استقبالی جلوس پر اندھا دھند گولیاں برسائیں گئیں۔ اس وقت بھی اچھا نہیں ہوا تھااور آج جو لاہور کے چوک یتیم خا نہ میں ہوا وہ بھی اچھا نہیں ہوا لیکن سوچنا تو یہ ہے کہ آخر ایسے سانحات کے لئے جواز کیوں پیدا کئے جاتے ہیں اختلافی مسائل پر فریقین بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے،معصوموں کی خونریزی کا جواز کیوں پیدا کیا جاتا ہے ،

لیکن یہ ہم عام لوگوں کو سوچنا ہو گا ہمیں خود میں تبدیلی لانی ہوگی اگرآج ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم کسی کی ذاتی مفادات اور خواہشات کے لئے لگائی گئی آگ کا اندھن نہیں بنیں گے تو مفاد پرست اور خود پرست اپنی موت آپ مر جائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں