پاکستانی یورپ کا رخ کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟ تحریر : حمید چوہدری (پیرس)

تحریر : حمید چوہدری
مکتوب پیرس

پاکستانی یورپ کا رخ کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟

اسلام و علیکم قارئین آج کوئی مضمون نہیں بلکہ حقیقت بیان کرنے جارہا ہوں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک نجی محفل میں گپ شپ کے دوران ایک دوست گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آجکل کی نسل یورپ کی تصاویر اور ویڈیو دیکھ کر یورپ کا رخ کررہے ہیں مگر شاید میں دیکھ رہا تھا کہ ان کے چہرے سے حسد کی مخصوص جھلک دکھائی دے رہی تھی ،محفل کے آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے موصوف سے سوال نہ کرسکا کہ جناب کو کیا چیز یورپ کی طرف کھینچ لائی تھی کونسی وہ برہنہ تصاویر تھی جس نے آپ کو یورپ کی طرف رخ کرنے پر مجبور کیا یا کوئی سمندر کے ساحل پر ننگ دھڑنگ لیٹی عورت تو نہیں تھی..؟

جناب عرض ہے کہ کیونکہ موصوف ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار تھےان جیسے دوستوں کو بتانا چاہوں گا کہ (سارے اسیر مجرم نہیں ہوتے صاحب

قید خانے میں کھبی یوسف بھی لاےُ جاتے تھے)

یہ جو ڈنکیاں لگا کر جان کی بازی لگا کر یورپ کا رخ کرتے ہیں یہ آپکے لیڈران کی عوام دشمن پالیسیوں، جھوٹے مقدمات، غیر منصفانہ احتساب، مردہ ضمیر عدالتی نظام، مہنگائی، لاقانونیت کے ستائے ہوئے ہیں لوگ ہیں کسی کو بھی دربارکا لنگر اچھا نہیں لگتا اگر اس کو بہترین دسترخوان میسر ہو ،یہ جو اس وقت یا ماضی میں یورپ میں آئے ہوئے اکثریتی لوگ(لیڈر) یا تو کسی ایجنٹ کو بھاری معاوضہ دیکر، ڈنکی لگا کر یا شادی کرکے ہی یورپ آئے ہیں کسی کو بھی حکومت فرانس نے دعوت نامہ دیکر نہیں بلایا بلکہ یورپ میں آئے ہوئے اکثر بیشتر لوگ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے آئے تھے پھر یہاں کے معمولات زندگی ،گڈ گورننس کو دیکھ کر یہاں ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دی، مگر کچھ بھی ہو ابھی وہ پاکستان والی چوہدراہٹ کا خواب تو نہیں بھولے تھے کیا ہوا جب پیٹ کی بھوک ختم ہوئی تو پھر شہرت، بلند مقام کی بھوک نے جنم لیا تو پھر علاقہ کے لوگوں کو 5یا 10ہزار بھیج کر اپنے دریا دلی کے چرچے مشہور کروانے شروع کردیئے پاکستان کی کچھ مشہور دریا دل شخصیات فرانس میں موجود ہیں جو کہ پاکستان میں تو انسانیت کی بھلائی کے بلند وبانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر یہاں پر آئے ہوئے اپنے علاقہ کی عوام کیساتھ کسی قسم کا تعاون کرنا توہین سمجھتے ہیں اس کو ہی تو حسد کی آگ کہتے ہیں بہرحال موضوع کی طرف واپس آتے ہیں بھوک صرف پیٹ کی نہیں ہوتی عزت، دولت، شہرت، اور ہر وہ چیز جو کسی چیز کی طرف اکسائے ‘بھوک’ ہی تو ہے۔ اس کو مٹا نے کیلئے ہوس، لالچ، دھوکا، الزامات، تہمت، جھوٹ، برائی، اور بہت سارے حربوں کا سہارالیا جارہا ہے

ایک لحاظ سے بھوک اچھی بھی ہے اگر یہ صرف جگانے کا کام کرے تو۔ آگے بڑھنا، اور اونچے خواب بھی ایک بھوک ہی ہے مگر عزت نفس، خود داری اور اپنی ذات کی قیمت سے ان کی قیمت کبھی ادا نہ کی جائے۔ کامیابی ایک موتی ہے جس کو ظاہر ہونے کیلئے وقت درکار ہے۔ کیونک کامیابی بھوک کے ہاتھوں کبھی مجبور نہیں ہوتی، اسے نہ تو جلدی ہوتی ہے اور نہ ہی مشتہر کی ضرورت۔ کامیابی تو ایک شور مچاتا سچ ہے اور سچ میں کوئی خلا یا محرومی نہیں ہوتی۔ خواہشات کا تعلق احساس محرومی سے اگر جوڑ دیا جاۓ تو یہی “بھوک” ہے۔

احساس برتری اور کمتری میں کسی دوسرے کے احساس کو بھول جانا اخلاقی طور پر کبھی بھی اچھا فعل نہیں ہو سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں