تبدیلی سرکار بمقابلہ جعلی پولیس مقابلے تحریر : حمید چوہدری

تبدیلی سرکار بمقابلہ جعلی پولیس مقابلے
تحریر : حمید چوہدری
پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں کا سلسلہ زوروشور کے ساتھ جاری ہے، ہمیشہ ہی یہی خبر آپکو ملے گی کہ پولیس گرفتار ملزم کو برآمدگی کیلئے لیکر جارہی تھی کہ راستہ میں گھات لگائے ملزموں نے اپنے گرفتار ساتھیوں کو پولیس پارٹی سے چھڑانے کیلئے پولیس پر سیدھی فائرنگ کردی جس کی زد میں آکر حملہ آوروں کے گرفتار اپنے ساتھی ہی ان کی گولیوں کا نشانہ بن گے یہ کیسے ساتھی ہوتے ہیں جو پولیس سے ساتھیوں کو چھڑوانے کیلئے اپنے ہی ساتھیوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پولیس وین پر حملہ ہوتا ہے تو اور گرفتار ملزمان کے ساتھی جب فائرنگ کررہے ہوتے ہیں تو اس وقت پولیس کہاں ہوتی ہے ؟؟؟ جو ہر بار معجزانہ طور پر محفوظ رہتی ہے ؟؟؟؟ اکثر پولیس مقابلہ میں مارے جانیوالے ملزم کے پاس آپکو 30 بور پسٹل نظر آئے گا کیا اس پسٹل میں اتنی گولیاں ہوتی ہیں جو کہ جدید اسلحہ سے لیس ایلیٹ فورس، پولیس فورس کا گھنٹوں مقابلہ کرتی رہتی ہیں کیا جن کے بیگناہ بیٹے،بھائی، باپ مارے جاتے ہیں ان کے لواحقین کا حکومت اور پولیس کے متعلق رویہ دوستانہ ہوگا ؟؟؟ ان فرضی پولیس مقابلوں میں گناہ گاروں کے ساتھ بے گناہ بھی اس آگ کاایندھن بن رہے ہیں پنجاب بھر میں محکمہ پولیس کی کئی کالی بھیڑیں جو کہ برسوں سے سیاسی پارٹیوں کے بااثر افراد کے ذاتی ملازمین بن کر صوبے کے مظلوم اور بے کس عوام پر ظلم وستم کا پہاڑ توڑ رہے ہیں ان کیخلاف قانون کب حرکت میں آئے گاان بدبخت گھٹیا افسران کی وجہ سے محکمہ پولیس پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوکر رہ گیا
پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی یہ وہ سلوگن ہے جو کہ محکمہ پولیس کے ماتھے کا جھومر اورمعاشرے کے ظلم و جبر سے ستائے ہوئے مظلوموں کو احساس تحفظ دلاتا اور انہیں پولیس کے ادارے کے محفوظ حصار میں ہونے کا یقین دلاتا ہے بلاشبہ ہر ادارے کی طرح پولیس میں بھی ایسے جاں فروش پائے جاتے ہیں جوکہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور سروں کا نذرانہ پیش کرکے معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم طبقے کو ظالم کے ظلم سے بچاتے ہیں بلکہ انہیں محفوظ بھی کرتے ہیں ۔
پنجاب بھر میں ہونیوالے جعلی پولیس مقابلے سیکیورٹی ادارے، ان انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اداروں نے کبھی بھی زحمت کرنا گوارہ نہیں کی کہ معلوم کیا جائے ملنے والی معلومات درست ہے یا نہیں، کم سے کم انسانی نقصان ہو، اگر مزاحمت نہیں کی جارہی تو زندہ گرفتاری ہی عمل میں لائی جائے۔ ایسے قواعد تو عام طور پر سبھی کو پتا ہیں مگر جس طرح دیگر قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، ویسے ہی ان کا بھی یہی حال ہے۔
ہمارے ادارے کمزور پڑ چکے ہیں، جس طرح ان کا احتساب ہونا چاہیے تھا ویسا نہیں ہو پا رہا۔ پولیس جن قوانین کے تحت کام کر رہی ہے وہ 1861ء کے قوانین ہیں۔ پولیس قوانین میں اصلاحات، جدید ٹریننگ، شواہد اکھٹا کرنے کی صلاحیت بڑھانے اور پراسیکیوشن کو مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے
حکمرانوں کو یہ سب حقائق معلوم تو ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی صورتِ حال کی بہتری میں آڑے آتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں کہ پولیس انہی کی وفادار بن کر رہے۔ ایسے میں پیشہ وارانہ تربیت اور بہتری کیسے ممکن ہوگی
پولیس مقابلوں میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا معاملہ نہایت سنگین ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں شفافیت اور انصاف کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان میں جاری یہ جعلی پولیس مقابلے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام داغدار کرتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں