انسان بیمار کب ہوتا ہے؟ تحریر شوکت علی

انسان بیمار کب ہوتا ہے؟

تحریر شوکت علی

کارل جُنگ دنیاۓ نفسیات کا ایک بہت بڑا نام ہے، ایک دفعہ ایک نوجوان اسکے پاس آیا جو نیوراسس کا شکار تھا جسے آپ ایک طرح کا اعصابی مسلہ کہہ سکتے ہیں۔ اس نے جُنگ کو اپنے مرض کے متعلق بتایا اور اسکے ساتھ ہی اسے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے تعیں کتابوں کا مطالعہ کر کے اس مرض کا علاج معلوم کیا ہے اور اس پر ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ جُنگ بتاتا ہے کہ اس نے مضمون کا مطالعہ کیا تو یہ ایک انتہائی اعلی پاۓ کا تحقیقی مضمون تھا کیونکہ وہ نوجوان خود بھی اعلی تعلیم یافتہ تھا اور طبی کتابوں کے مطالعہ سے اسنے اپنے مرض کے متعلق جو علاج متعین کیا تھا وہ بلکل وہی تھا جو جُنگ اسے تجویز کرتا لیکن مسلہ یہ تھا کہ وہ علاج اختیار کرنے کے باوجود اس نوجوان کا مرض بدستور اپنی جگہ موجود تھا اور اسی بات نے اس نوجوان کو پریشان کر رکھا تھا کہ بلکل صحیح اور درست طریقہ علاج کے باوجود اسکو مرض سے چھٹکارا کیوں نہیں مل رہا۔ یہ بات خود جُنگ کے لیے بھی حیران کُن تھی چناچہ اس نے نوجوان سے بات چیت کے دوران اسکی روزمرہ زندگی کے متعلق سوالات کرنا شروع کر دئیے۔ باتوں باتوں میں جُنگ کو معلوم ہوا کہ وہ نوجوان سال کے کچھ دن چھٹیاں گزارنے کے لیے سوئٹزرلینڈ جاتا ہے کیونکہ اسے سوئٹزرلینڈ بہت اچھا لگتا ہے جبکہ اسکی ان چھٹیوں کا خرچہ ایک نوجوان لڑکی اٹھاتی ہے جو اگرچہ امیر نہیں بس ایک سکول ٹیچر ہے لیکن وہ اپنی تنخواہ سے سارا سال بمشکل ہیسے بچا کر اس نوجوان کو دیتی ہے تاکہ وہ اپنی پسند کی جگہ پر چھٹیاں گزار سکے۔ وہ نوجوان لڑکی یہ سب کچھ اس نوجوان سے محبت کی وجہ سے کرتی تھی۔
جُنگ نے فورا اس نوجوان سے کہا کہ تمہاری بیماری کے دور نہ ہونے کی وجہ تمہاری بے حسی ہے تم نے کبھی یہ احساس نہیں کیا کہ وہ نوجوان لڑکی اپنی کمائی سے بمشکل بچت کر کے صرف تمہیں خوش دیکھنے کے لیے تمہارے پسندیدہ مقام پر چھٹیاں گزارنے کے لیے رقم فراہم کرتی ہے اور تم نے کبھی اس بات کا احساس نہیں کیا اور مزے سے تنہا وہاں چھٹیاں گزارنے چلے جاتے ہو۔ اس نوجوان نے جُنگ کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اسکے مطابق جب اس نے مرض کا صحیح صحیح علاج دریافت کر لیا اور اسکے مطابق عمل بھی کیا تو مرض کو دور ہو جانا چاہیے تھا۔ اسکی زندگی کے اس مخصوص واقعے کا اسکے مرض اور علاج سے کیا واسطہ؟
اس نوجوان کی یہ سوچ دراصل مادی نظریہ حیات کی مرہونِ منت تھی جہاں کسی مادی مسلے کا حل بھی مادی پس منظر میں ہی تلاش کیا جاتا ہے مثلاً آپکو بھوک لگی ہے تو آپ روٹی کھا لو یہ جانے بغیر کہ یہ لقمہ جو آپ حلق سے اتار رہے ہو کسی دوسرے کے منہ سے تو نہیں چھینا گیا۔ جن افراد کی سوچ مادہ پرست ہوتی ہے انھیں صرف اپنی بھوک مٹانے سے غرض ہوتی ہے، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ جو روٹی وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کھا رہے ہیں وہ کسی دوسرے کا حق تو نہیں تھی۔ وہ پیٹ بھر کر روٹی کھاتے ہیں اور بے فکری کی نیند سو جاتے ہیں۔ یہ روٹی انکی پیٹ کی بھوک کو تو مٹا دیتی ہے لیکن انکی روح کو بے حس اور بیمار کر دیتی ہے۔ کوئی انسان یا معاشرہ جس قدر بے حس ہوگا اسی قدر بیمار بھی ہوگا۔ آج ہم دعوی کرتے ہیں کہ انسان بہت ترقی یافتہ اور مہذب ہوگیا ہے۔ ترقی یافتہ ہونے کی حد تک تو شاید بات درست ہے کہ اسنے بڑے جدید اور حیران کن آلات ایجاد کر لیے ہیں لیکن مہذب شاید وہ آج بھی نہیں ہوا۔ وہ آج بھی اپنی جبلتوں کا غلام ہے جنکی تسکین کے لیے وہ کسی بھی حد سے گزر جاتا ہے۔ وہ اپنے گروہ، ذات برادری اور اپنی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لیے حیلے بہانے تراش لیتا ہے جس سے وہ اپنے مقاصد تو حاصل کر لیتا ہے لیکن جذبات و احساس کی دنیا میں تہی دامن رہ جاتا ہے۔ اسی احساس کی محرومی نے اس میں ایسے ایسے شدید نفسیاتی رد عمل پیدا کیے ہیں جس نے اسکے اعصاب کو چٹخا کے رکھ دیا ہے۔ آپ اسے بڑا صاف ستھرا اور نفیس لباس میں ملبوس دیکھیں گے لیکن اسکی روح بیمار پڑتی چلی جا رہی ہے اور اسکے اندر کی یہ خوفناک صورتخال ہی ہے جس نے باہر کی دنیا کو بھی خوفناک بنا دیا ہے۔ جب انسان کے من کی دنیا میں امن نہیں ہوگا تو باہر کی دنیا میں امن کیسے آے گا؟
ہم اقوامِ عالم اور دنیا کی مجموعی صورتخال سے نیچے آکر اپنے انفرادعی رویوں کو بھی دیکھیں تو وہ بے حسی کا نمونہ بنے احساس اور انسانیت کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ کہیں کوئی حادثہ ہو جاۓ تو متاثرین کی فوری مدد کی بجاۓ آس پاس موجود افراد سب سے پہلے جیب سے سمارٹ فون نکالتے ہیں اور حادثے کی فلم بنانا شروع کر دیتے ہیں یہ احساس کیے بغیر کہ شاید ہماری فوری مدد کسی کی جان بچا دے۔ جان جو اس کائنات کی سب سے قیمتی چیز ہوتی ہے جو ایک بار عطا ہوتی ہے، کھو جاۓ تو دوبارہ نہیں ملتی ہمیں اس انمول چیز کو اپنے سامنے ضائع ہوتے دیکھ کر بھی احساس نہیں ہوتا۔ بے حسی نے بحثیتِ مجموعی ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہر انسان زندگی کی دوڑ میں بھاگے چلا جا رہا ہے یہ جاننے کی کوشش کیے بغیر کہ اسنے اپنی تیز رفتاری سے کسی کو کچل تو نہیں دیا۔ زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جانے کی شدید خواہش میں، صرف اور صرف اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جدوجہد میں وہ تنہا تو نہیں ہوتا جا رہا۔ اگر ہم غور کریں تو انسان کی اپنی ذات سے لیکر اقوام عالم کی سطح تک تمام مسائل اور ہر بیماری کا علاج احساس میں پوشیدہ ہے، اگر احساس نہیں تو کوئی دوا کوئی تدبیر بھی آپکو تندرست نہیں کر سکے گی اور ہم سدا بیمار ہی رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں