امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوکلیئر آبدوزیں روس کے قریب تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ انہوں نے دو جوہری آبدوزوں کو روس کے قریب علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اقدام روس کے سابق صدر اور روسی فیڈریشن کی سکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے بیانات کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔
ٹرمپ نے “ٹروتھ سوشل” پر ایک بیان میں کہا “روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف، جو اب روسی فیڈریشن کی سکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین ہیں، کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات کی بنیاد پر، میں نے حکم دیا ہے کہ دو جوہری آبدوزیں متعلقہ علاقوں میں تعینات کی جائیں، اگر یہ احمقانہ اور اشتعال انگیز بیانات محض الفاظ سے بڑھ کر کچھ نکلیں۔ الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں، اور اکثر غیر ارادی نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ ان میں سے ایک مثال نہیں ہوگی۔
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی سکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے درمیان حالیہ دنوں میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ یہ کشیدگی اس وقت بڑھی جب منگل کے روز ٹرمپ نے کہا کہ روس کے پاس آج سے “10 دن” ہیں کہ وہ یوکرین میں جنگ بندی پر راضی ہو جائے، ورنہ اسے اور اس کے تیل خریدنے والوں کو بھاری ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میدویدیف نے ٹرمپ پر “الٹی میٹم کا کھیل” کھیلنے کا الزام لگایا اور اسے یاد دلایا کہ روس کے پاس اب بھی سوویت دور کی “آخری حربے” کے طور پر جوہری حملے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ردعمل اس وقت آیا جب ٹرمپ نے میدویدیف کو خبردار کیا تھا کہ “اپنے الفاظ کا خیال رکھو۔
2022 میں جب روس نے یوکرین پر وسیع حملہ کیا، اس کے بعد سے میدویدیف کریملن کے سب سے زیادہ مغرب مخالف اور سخت گیر بیانات دینے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ کریملن کے ناقدین انہیں ایک غیر ذمہ دار اور بے قابو شخصیت سمجھتے ہیں، لیکن بعض مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے بیانات کریملن کی اعلیٰ پالیسی سازی کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں