آج کا انسان: بیزاری، چڑچڑا پن اور نفسیاتی دباؤ کا شکار کیوں؟ از قلم: واجد قریشیؔ

آج کا انسان: بیزاری، چڑچڑا پن اور نفسیاتی دباؤ کا شکار کیوں؟

از قلم: واجد قریشیؔ

آج کا انسان بظاہر کامیاب، مصروف اور آسائشوں میں گھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، مگر اندر سے وہ بکھرا ہوا، نڈھال اور تھکا ماندہ ہے۔ اس کی آنکھوں میں چمک کی جگہ بے خوابی نے لے لی ہے، اور دل میں سکون کی بجائے سوالوں کا شور برپا ہے۔ وہ ترقی کی منزلیں تو طے کر رہا ہے، مگر روحانی سطح پر مسلسل زوال کا شکار ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اسے مزید بےچین اور خالی کر رہا ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ ایک معاشرتی ضرورت بن چکی ہے، مگر دل میں ایک ایسا اضطراب پل رہا ہے جو لمحہ بھر کو بھی قرار لینے نہیں دیتا۔

ہم نے زندگی کو صرف مادی کامیابی، ظاہری چمک اور مقابلے کی دوڑ تک محدود کر دیا ہے۔ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی دھن میں خود کو کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا، جس نے ہمیں جوڑنے کا دعویٰ کیا تھا، ہمیں درحقیقت ہماری اصل سے دور لے گیا۔ ہم دوسروں کی چمکتی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی حقیقت سے شرمندہ ہونے لگے ہیں۔ خوشی کو ہم نے دوسروں کے معیار سے تولنا شروع کر دیا ہے۔ یہی تقابلی سوچ ایک ایسا زہر ہے جو خاموشی سے ہماری خودی، ہمارے اطمینان اور وجود کو اندر سے چاٹ رہا ہے۔

دوسری طرف، انسان آج پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہے۔ تعلقات کی بظاہر بہتات ہے، مگر دلوں کے درمیان فاصلہ صدیوں جتنا پھیل چکا ہے۔ ہم قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ دل کی بات سننے والا کوئی نہیں، اور جذبوں کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ ایک طرف زندگی کی تیزرفتاری ہے، دوسری طرف تنہائی کا وہ گہرا خلا جو اندر ہی اندر انسان کو گھائل کر دیتا ہے۔ یہی خاموش اذیت ہمیں چڑچڑا، منتشر اور خود سے بیگانہ بنا رہی ہے۔

زندگی بےسمت ہو چکی ہے۔ ہم روزانہ ایک بے مقصد دوڑ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ہم تھک چکے ہیں، مگر رُکنے کی گنجائش نہیں۔ ہم اپنے شوق، اپنے مقصد اور اپنی اصل پہچان سے بہت دُور نکل آئے ہیں۔ ہم اب ایک ایسی مشین میں ڈھل چکے ہیں جو کام تو کرتی ہے، مگر محسوس نہیں کرتی۔ چلتی ہے، مگر جیتی نہیں۔

اور شاید اس بےسمتی کا سب سے گہرا سبب وہ روحانی خلا ہے جو ہمیں اپنے خالق سے دور ہونے کے نتیجے میں ملا ہے۔ ہم نے وہ سجدے ترک کر دیے جن میں دل کو قرار اور روح کو توانائی ملتی تھی۔ وہ دعائیں جو آنکھوں کو نم اور روح کو پاک کرتی تھیں، ہم نے چھوڑ دیں۔ ہم نے دل کو دنیا کی آوازوں سے بھرنے کی کوشش کی، حالانکہ وہ تو ذکرِ الٰہی کی نرمی مانگتا تھا۔ جب روح خدا سے ٹوٹ جائے، تو کوئی چیز، کوئی رشتہ، کوئی کامیابی، اسے دوبارہ جوڑ نہیں سکتی۔

اس ساری کیفیت سے نجات کا واحد راستہ خود شناسی ہے۔ ہمیں رُک کر خود سے سوال کرنا ہو گا: ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا واقعی یہ راستہ ہمیں ہمارے مقصد، ہمارے سکون اور ہماری اصل پہچان کی طرف لے جاتا ہے؟ ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ رشتوں کو وقت دینا ہو گا، دل کو دوبارہ محسوس کرنا سکھانا ہو گا، اور روح کو وہ غذا دینی ہو گی جو صرف ذکر، خاموشی، دعا اور سادگی میں ملتی ہے۔ ہمیں شکرگزاری کو اپنانا ہو گا، اور اس سچ کو قبول کرنا ہو گا کہ زندگی کا سکون زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں خوش رہنے کی صلاحیت میں ہے۔

اگر ہم نے وقت پر خود کو نہ سنبھالا، تو ہم ایک ایسی نسل میں تبدیل ہو جائیں گے جو سب کچھ رکھتے ہوئے بھی اندر سے خالی ہو گی۔ وہ خالی پن جو کسی شور سے نہیں، صرف خاموشی سے دُور ہو سکتا ہے۔ ہمیں دوبارہ جینے کا سلیقہ سیکھنا ہے۔ وہ جینا جو صرف سانس لینے کا عمل نہیں بلکہ ایک شعور، ایک تعلق اور ایک سکون کی کیفیت ہے۔ ورنہ یہ بیزاری، یہ بے مقصدیت، ہمیں اندر ہی اندر مکمل طور پر کھا جائے گی۔ اور ہمیں شاید اس کا علم تب ہو گا، جب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں