السلام علیکم مزید سامعین آج سے ہم آپ کے لیے خود احتسابی کے نام سے ایک نیا پروگرام شروع کریں گے چونکہ یہ پروگرام کسی ایک موضوع پر ہوگا اور شاید ریکارڈڈ ہو تو اس کو ہم ایک علادہ موضوع خود احتسابی کا نام دے رہے ہیں جو متفرقات سے ہٹ کر ہوگا کیونکہ متفرقات کا اپنا ایک فارمیٹ ہے
تو اس پروگرام میں ہم کرنٹ حالات پر حالات حاضرہ پر کسی ایک موضوع پر بات کیا کریں گے یہ پروگرام ریکارڈڈ بھی ہو سکتا ہے یہ پروگرام ٹیلی فون کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے تو آج ہم جس موضوع پر بات کریں گے اس کا عنوان میں نے رکھا ہے جنرل ایوب سے فیصل وارا تھا
اس کی وجہ سینٹ میں کی جانے والی فیصل وارڈا صاحب کی ایک تقریر ہے اس تقریر کا ایک کلپ سنا تو جنرل یوب صاحب کی لکھی ہوئی کتاب فرینچ نوٹ ماسٹرز جس کا بعد میں جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کتاہی کے عنوان سے اردو ترجمہ بھی ہوا تھا تو اس کتاب کے پڑے ہوئے کچھ حصے میرے ذہن میں آگئے اور انہیں میں نے فیصل وارڈا کی تقریر کے ساتھ کنیکٹ کر کے اس موضوع پر بات کرنے کا ارادہ کیا
تو چلتے ہیں موضوع کی طرف کسی بھی ملک میں وہ طبقہ جو سب سے زیادہ قومی وسائل پر ہاتھ صاف کر رہا ہوتا ہے اسے اپنے اس فیل کو درست بلکہ وقت کی ضرورت قرار دینے کے لیے اپنے سر پر ایک عدد کامیابی کے دار کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں ہیرو بنا کر پیش کر سکیں جبکہ غریب اور مہنگائی کی چکی میں پستی عوام ان کے لیے مزید قربانی دینے پر تیار ہو جائے
پاکستان اور بھارت مئی دو ہزار پچیس میں ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر تھے دونوں کے درمیان جڑپے ہوئیں اور پھر امریکہ کی مداخلت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جڑپوں کا سلسلہ رک گیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرم پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ کے آگے بند باننے کو اپنے صدارتی کارناموں میں شمار کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ امن کے عالمی ایوارڈ کی امید لگائے بیٹھے ہیں
بھارت میں مودی پاکستان کی ٹکائی کرنے کا ڈھنڈھوڑا پیٹ رہے ہیں جسے وہ آئندہ انتخابات میں کیش کروانے کی کوشش کریں گے پاکستان میں بھارت کے چھ جہاز مار گرانے کے بعد اسے گٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے داموں کے بعد اچانت شہباز شریف کی حکومت نے بری فوج کے سربراہ جنرل آسان منیر کو جنگ یا پھر جڑپوں میں بہترین کارکردگی دکھانے پر فیل مارشل کے عہدے پر ٹرپ کی دے دی ہے
موڈی کو اپنی کامیابی کے دعوے کو ابھی عوام کی عدالت میں پیش کرنا ہے جو انتخابات کی شکر میں مستقبل قریب میں سجے گی دیکھیں بارٹی عوام اس کے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ممکنہ جان کے خطرے سے روکنے کے اپنے کارنامے پر امن کا نوبل پرائیز حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو انام دینے والی جوری ہی کرے گی جس کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو ابھی انتظار کرنا ہو
لیکن پاکستان میں شہباز شریف کی حکومت نے کمال صورت کا مظایرہ کرتے ہوئے جنرل آسم منیر کو فیل مارشل کے عہدے پر ترقی دے دیا جس کے بعد عوام سے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید قربانیوں کی امید کی جا رہی ہے اور اس بات کا اندازہ سینٹ میں سینیٹر فیصل وارا کی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے مصوف سینٹ میں بڑے ناسہانہ انداز میں فرما رہے تھے ہمیں ڈیفینس بجٹ سر بڑھانا پڑے گا
اب ہمیں فوج کی تمام فورسز کی تنہاؤں کو ڈبل کرنا پڑے گا انسینٹیوز بڑھانے پڑیں گے اپنے شاہی خرچے روکنے پڑیں گے development plan روکنے پڑیں گے جب فیصل وارڈا یہ تقریر کر رہے تھے تو مجھے ایسا لگا جیسے پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب ہان کی روح فیصل وارڈا میں حلول کر گئی ہے
اور وہ اپنے فوجیوں کے لیے مراج چاہتی ہے تاکہ ان میں دفاع وطن کا جذبہ پیدا کیا گا سکیں پاکستان اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں انتہائی مالی مشکلات کا شکار تھا چنانچہ ان مشکلات سے نبٹنے کے لیے ہر کسی سے قربانی کی امید کی جاتی تھی
جبکہ پاکستان کی مسلحہ فاج کے کمانڈر انجیب جنرل عیوب خان خود اپنی کتاب فرینچ نارڈ ماسٹرز میں لکھتے ہیں کہ اس وقت ازاد ملک کے لیے نہ تو کوئی مشکل ایسی تھی کہ آسان نہ ہو سکے اور نہ کوئی قربانی اتنی عظیم تھی کہ اس سے درعے کیا جا سکے لیکن یوں لگتا ہے جنرل عیوب خان جس عظیم قربانی سے درعے کو ممکن نہیں سمجھتے تھے اس کی امید وہ صرف قوم سے لگائے بیٹھے تھے
کیونکہ این اس وقت جب پاکستانی حکومت مالی مشکلات سے دوچار تھی تو جنرل ایوب اپنے فوجی جوانوں کے لیے انسینٹفز کے حصول کے لیے وزارت خزانہ سے طویل جدو جہل میں مصروف تھے جنرل ایوب اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں ہمارے پاس طلحہ یا پینچن کا کوئی ضابطہ نہیں تھا اور فوجیوں کو طویل اور قابل تعریف سروس کے سیلے میں جو وظائف یا رکوم ملا کرتی تھی گورنمنٹ نے انہیں بند کر دیا تھا
نہ ازادی کمیشن دیا جا سکتا تھا نہ کسی قسم کا نگد انام میں نے اس سلسلے میں وزاعت خزانہ سے طویل اور سخت جانگ شروع کی پھر بھی مجھے ان میں سے بعض مسائل کو حل کرنے میں تقریباً سات پر اسلاک کریں
اور پھر آگے جنرل یوب لکھتے ہیں جس شک سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایک دن اپنے وطن کی خاطر اپنی جان عزیز قربان کر دے اس کی کفالت اور خاطر جمعی کا کچھ نہ کچھ انتظام تو ہونا چاہیے جنرل یوب ہاں کی اپنی بیان کی گی ان باتوں میں کچھ نکات کافی غور طلب مسن جب وہ فوجیوں کے لیے ازادی کمیشن اور نگت انام کی بات کرتے ہیں
تو یقیناً وہ انگریز دور کی بات کار رہے تھے جب انگریز تاج برطانیہ کی حفاظت اور دفاع کے لیے ہندوستانی فوجیوں میں جذبہ محرک پیدا کرنے کے لیے انہیں ازازی کمیشن اور نگڑ انام کا ضالت سے دیتا تھا لیکن پاکستان کے قیام کے بعد تو پاکستان کی فوج ایک ازاد ملک کی فوج تھی اور جنرل ایوب خان خود فرما رہے تھے کہ ازاد ملک کی خاطر کسی بھی عظیم قربانی سے درعیق نہیں کیا دا سکتا
تو کیا اسی ازاد ملک کے دفاع کے لیے جنرل ایوب ہان کو فوجیوں کے لیے ازاد کمیشن اور نگت انام کی ضرورت تھی؟ غلام ہندوستان میں تو آپ انگریدی اقتدار کے لیے لڑتے تھے لیکن ازاد پاکستان میں تو آپ کو اپنے ملک اور قوم کی ازادی اور خود مختاری کے لیے لڑنا ہے تو کیا آپ کو اس کے لیے ازاد کمیشن اور نگت انام چاہیں گے؟
کیا آپ ایک ازاد ملک کی فوج نہیں ہیں اور ملک بھی وہ جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اس کا تصور دینے والا حکیم الامت علامہ اقبال کیا فرماتے ہیں شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال گنیمت نہ کشور کشائی دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی
اسی پاکستان کی پاک فوج مصور پاکستان کے اس شیر کا عملی نمونہ نظر کیوں نہیں آتی وہ انگریزی ہندوستان کی فوج بننے پر کیوں تڑی ہوئی ہے جس کے افسران اور جوان ازادے کمیشر اور نگت انامات کے لیے لڑتے تھے یہاں ہمیں فیصل وارڈا کی تقریر میں ایک بنیادی نکتے کو سمجھنا بہت ضروری ہے فیصل وارڈا فرما رہے تھے کہ ہمیں فوج کی تمام فورسز کی تنہاؤں کو ڈبل کرنا ہوگا
فوج کو دفاع کے لیے جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا اور فوجی افسران اور جوانوں کی تنہاؤں کو دگنا کر دینا بلکل مختلف باتیں ہیں اگر قوم اپنا پیٹ کاٹ کر تلیم اور صحت کی سہولتوں کے اخراجات کو کم سے کم رکھتے ہوئے
مہنگائی کے مقابلے میں کم تنہاؤں اور اجرتوں پر کام کرتے ہوئے گزارہ کر رہی ہے تو ایسے میں کسی سینیٹر کا یہ کہنا کہ تمام فورسز کے عرقان کی تنہاؤں کو دگنا کر دینا چاہیے مصائب اور مہنگائی کی چکی میں کسی قوم کے ساتھ ایک گھونڈا مزاحی قرار دیا جا سکتا ہے
اپنی ازادی کے ابتدائی سالوں میں قوم مالی مشکلات کا شکار تھی لیکن جنرل ایوب ہان کو اپنے وطن کا دفاع کرنے والوں کے لیے انسینٹیف ضرکار تھی تاکہ وطن کی خاطر جان دینے کے ان کے جذبے کو زندہ رکھا جا سکے لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کے دفاع وطن اور جان دینے کے جذبے کو باقی رکھنے کے لیے انسینٹیف کی ضرورت ہے
تو پھر قوم کے جذبہ حب الوطنی کو باقی رکھنے کے لیے بھی تو کسی انسینٹیف کی ضرورت ہوگی اور یہ انسینٹیفز ملک میں جاری ترقیاتی منصوبے ہوتے ہیں جن سے عوام کو سہولتیں میسر آتی ہیں ان کا میار زندگی بہتر ہوتا ہے اب فیصل وارڈو عوام کی انسینٹیفز کو تو روکنا چاہتے ہیں لیکن فوجی افسران اور جوانوں کے انسینٹیفز تنہاؤں کی صورت میں ڈبل کرنا چاہتے ہیں
جس کی ادائیگی اس غریب قوم کی جیب سے ہوگی جو پہلے ہی افواج پاکستان کو دفاع کی جدید سہولتوں کی فراہمی کے لیے اپنا پیٹ کار کر گزارہ کر رہی ہے تو اگر قوم ایسا کر رہی ہے تو فورسز کے جوان اور افسران ایسا کیوں نہیں کر سکتے یا پھر وہ غریب اور کرزوں میں جکڑی قوم کی جدید اور امیر فوج بننا چاہتے ہیں فیصل وارڈو نے شاہی خرچے روپنے کی بات بھی کی ہے
اب سوال یہ ہے کہ یہ شاہی خرچے کر کون رہا ہے یہ شاہی خرچے ملکی اشرافیہ کر رہی ہے نہ کہ گریب عوام اور اس اشرافیہ میں سیاستدان جج فوجی و سیول افسران سب شامل ہیں کیا ہی اچھا ہوتا اگر فیصل وارڈو سینٹ میں اپنی تقریر کے ساتھ ہی اشرافیہ کے شاہی اخراجات کو کم کرنے کا کوئی بیل بھی پیش کر دیتے
یا پھر کبھی ہم نے دیکھا ہو کہ سینرڈیا سملی میں ان دونوں عوانوں کے عراقین کی مراد بڑھانے کا کوئی بل کوئی قراردار پیش ہوئی ہو اور فیصل وعدہ سمیت کسی نے عوام کے درد کا احساس کرتے ہوئے ایسے بل یا قراردار کی محالفت نہیں ہو یوں لگتا ہے جنرل یوبہان ہوں یا فیصل وعدہ وہ سب عوام سے اس عظیم قربانے کی امید رکھتے ہیں جو ایک ازاد ملک کے لئے ضروری ہوتی ہے
لیکن وہ خود یہ زیم قربانی دینے کو تیار نہیں ہے