فرانس سے تعلق رکھنے والے دنیا کے معمر ترین اولمپک چیمپئن شارل کوست کا 101 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔ 1948ء کے لندن اولمپکس میں سائیکلنگ چیمپئن بننے والے شارل کوست کے انتقال کی اطلاع کھیلوں کی فرانسیسی وزیر نے دی۔
فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے پیر تین نومبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق فرانس کی کھیلوں کی وزیر مارینا فیراری نے شول میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ دنیا کے ”برزگ ترین اولمپک چیمپئن‘‘ چارل کوست (Charles Coste) جمعرات 30 اکتوبر کے 101 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
مارینا فیراری نے ایکس پر لکھا، ”میرے لیے یہ جاننا ایک بہت ہی جذباتی لمحہ تھا کہ شارل کوست، جنہوں نے 1948ء کے لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتا تھا اور 2024ء میں پیرس منعقدہ اولمپکس کے لیے اولمپک مشعل بھی اٹھائی تھی، اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

کھیلوں کے شعبے میں شارل کوست کی عظیم میراث
فرنچ سپورٹس منسٹر مارینا فیراری کے مطابق، ”101 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے شارل کوست نے کھیلوں کے شعبے میں اپنے پیچھے ایک عظیم میراث چھوڑی ہے۔
فرانس کے شارل کوست اسی سال دنیا کے بزرگ ترین زندہ اولمپک چیمپئن بنے تھے، جب ہنگری سے تعلق رکھنے والی جمناسٹ اگنیس کیلیٹی کا دو جنوری 2025ء کو 103 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔
گزشتہ برس 26 جولائی کے روز پیرس میں ہونے والے 2024ء کے گرمائی اولمپک مقابلوں کی افتتاحی تقریب کے موقع پر شارل کوست نے، جو اس وقت ایک وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے، اولمپک مشعل اٹھائی تھی اور اسے مشترکہ طور پر جوڈو کے کھیل کے فرانسیسی لیجنڈ ٹیڈی رینر اور تین بار اولمپک چیمپئن بننے والی ایتھلیٹ ماری حوزے پیریک کے حوالے کیا تھا۔
اس کے بعد رینر اور پیریک نے مل کر ہی اس مشعل کی مدد سے پیرس کے اسٹیڈیم میں وہ اولپمک شعلہ بلند کیا تھا، جو ان عالمی کھیلوں کا رسمی افتتاحی لمحہ تصور کیا جاتا ہے۔

اولمپک سائیکلنگ چیمپئن
شارل کوست جنوبی فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے 1948ء کے اولمپک مقابلوں میں سائیکلنگ کے ایک ٹیم ایونٹ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر طلائی تمغے جیتے تھے۔
لندن میں اہتمام کردہ ان اولپمک مقابلوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد منعقد ہونے والے پہلے اولمپک مقابلے تھے۔ ان اولمپکس میں سائیکلنگ چیمپئن بننے والے چارل کوست کے ساتھی سائیکلسٹ سیرگے بلوسوں، فیرنانڈ ڈیکانالی اور پیئر ایڈم تھے، جن سب کا بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا۔
لندن اولمپکس کے ایک سال بعد چارل کوست نے 1949ء میں گراں پری آف نیشنز نامی مقابلہ بھی جیتا تھا، جس میں انہوں نے اٹلی کے سائیکلسٹ فاؤسٹو کوپی کو شکست دی تھی۔ گراں پری آف نیشنز سائیکلنگ کا ایک ایسا بین الاقوامی مقابلہ ہوتا تھا، جس میں فاتح کو کم سے کم وقت میں 140 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا تھا۔
بعد میں 1953ء اور 1954ء میں بھی چارل کوست نے کئی دیگر ملکی اور بین الاقوامی مقابلے جیتے تھے۔ وہ پروفیشنل سائیکلنگ سے 1959ء میں ریٹائر ہو گئے تھے۔
شارل کوست کا آخری انٹرویو
شارل کوست نے اسی سال جولائی میں اولمپک گیمز کی ویب سائٹ اولمپکس ڈاٹ کام کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا، ”اولمپک گولڈ میڈل جیتنا ایک ناقابل فراموش واقعہ تھا، ہم سب انتہائی خوش تھے، حالانکہ برطانوی میزبان ہمارے لیے ‘مارسےلیز‘ گانا بھی بھول گئے تھے۔‘‘
اپنے اسی انٹرویو میں کوست نے کہا تھا، ”ذاتی طور پر میں اپنے مخالف کھلاڑیوں کے لیے بھی تشویش میں مبتلا رہتا تھا۔ اسی لیے میں نے زندگی میں کھیلوں کے ذریعے ہی عمر بھر قائم رہنے والی دوستیاں قائم کیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی وہ میراث ہے، جو میں اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤں گا۔