فرانس: اب ایسا کوئی بھی جنسی عمل ریپ سمجھا جائے گا جو رضامندی کے بغیر کیا جائے گا

فرانسیسی قانون سازوں نے ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ’ریپ‘ کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے۔ اب ایسا کوئی بھی جنسی عمل ریپ سمجھا جائے گا جو رضامندی کے بغیر کیا جائے گا۔
بدھ کے روز فرانسیسی پارلیمان نے دیگر یورپی ممالک کی طرح ایک نیا رضامندی پر مبنی قانون منظور کیا، جس کے مطابق اب ایسا کوئی بھی جنسی عمل ریپ سمجھا جائے گا جو رضامندی کے بغیر انجام دیا جائے۔
یہ اقدام جیزیل پیلکو کیس کے بعد کیا گیا ہے، جس میں ایک خاتون کو نشہ آور دوا دے کر بار بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ قانون فرانس کی سینیٹ میں 327 ووٹوں کے ساتھ منظور کیا گیا، جبکہ 15 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
نئے قانون کے مطابق، ”ریپ ہر وہ جنسی عمل جو کسی شخص کی آزادانہ، باخبر، مخصوص، پیشگی اور قابلِ واپسی رضامندی کے بغیر کیا جائے، ریپ یا جنسی زیادتی کہلاتا ہے۔‘‘
یعنی اگر کسی فرد نے واضح طور پر رضامندی نہیں دی، یا اگر وہ نشہ آور دوا، دباؤ، دھمکی، خوف یا دھوکے کی حالت میں ہے، تو یہ عمل ریپ شمار ہو گا، چاہے جسمانی تشدد کیا گیا ہو یا نہیں۔
پہلے کے قانون میں ریپ صرف تب سمجھا جاتا تھا جب تشدد، زبردستی یا دھمکی شامل ہو، مگر اب توجہ متعلقہ شخص کی رضامندی پر مرکوز کر دی گئی ہے۔

پہلے کے قانون میں ریپ صرف تب سمجھا جاتا تھا جب تشدد، زبردستی یا دھمکی شامل ہو
سیاستدانوں اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کا ردِعمل
مرکزی جماعت سے تعلق رکھنے والی رکنِ پارلیمان ویرونیک ریوٹون جو اس بل کی شریک مصنف ہیں، نے کہا کہ اس قانون کی منظوری ”ریپ کی ثقافت سے رضامندی کی ثقافت کی جانب ایک تبدیلی‘‘ کی علامت ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل فرانس کی نمائندہ، ولا شولمین نے کہا،”یہ ایک تاریخی قدم ہے جو دیگر یورپی ممالک کی راہ پر چلنے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ صرف پہلا قدم ہے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ صنفی اور جنسی تشدد کے خلاف سزا سے استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ابھی لمبا سفر باقی ہے۔‘‘
خواتین کے حقوق کی دیگر تنظیموں، نے جنسی تعلیم میں بہتری، پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے لیے خصوصی تربیت، اور متاثرین کے لیے امدادی اداروں کو مزید وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رضامندی پر مبنی ریپ قوانین پہلے ہی بیلجیم، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین اور سویڈن میں موجود ہیں۔
یہ بل گزشتہ ہفتے فرانسیسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں (نیشنل اسمبلی) سے بھی منظور ہوا۔ صرف انتہائی دائیں بازو کے ارکان نے اس کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ ”رضامندی کی تعریف موضوعی، نامکمل اور سمجھنے میں مشکل‘‘ ہے۔
فرانس نے اب ریپ کا قانون کیوں بدلا؟
یہ بل جنوری میں اس وقت پیش کیا گیا جب ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے جنسی زیادتی کیس میں سزا سنائی گئی۔
دسمبر میں ایک انتہائی مشہور مقدمے میں جیزیل پیلکو کے ساتھ ہونے والی مسلسل زیادتی نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس مقدمے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فحش مواد، انٹرنیٹ چیٹ رومز اور رضامندی کے بارے میں خواتین مخالف رویے ریپ کلچر کو کیسے فروغ دیتے ہیں۔
عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ جیزیل کے شوہر ڈومینک پیلکو نے سن دو ہزار گیارہ سے 2020 تک اپنی بیوی کو بار بار نشہ آور دوائیں دے کر تقریباً 50 مردوں کو اس سے زیادتی کے لیے بلایا۔
ڈومینک پیلکو کو اس جرم پر 20 سال قید کی سزا سنائی گئی، جبکہ دیگر ملزمان کو 3 سے 15 سال تک قید کی سزائیں دی گئیں۔
ایک مجرم نے فیصلے کے خلاف اپیل کی، مگر اپیل پر اس کی سزا مزید بڑھا کر 10 سال کر دی گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں