“پرانے لوگ — وقت کے گواہ، یادوں کے امین” تحریر: واجد قریشی (کوپن ہیگن،ڈنمارک)

“پرانے لوگ — وقت کے گواہ، یادوں کے امین”

تحریر: واجد قریشی (کوپن ہیگن،ڈنمارک)

گھر کے صحن میں بیٹھے، سفید بالوں والے بزرگ جب خاموشی سے آسمان کو تکتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ وقت سے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔ ان کی آنکھوں میں صدیوں کی کہانیاں، ماضی کے موسم اور بیتے لمحوں کی خوشبو بسی ہوتی ہے۔ مگر ہم نے کب ٹھہر کر ان نگاہوں کو پڑھنے کی کوشش کی ہے؟ آج کے شور و ہنگامے، موبائل کی چمک اور مصروف زندگی کے بھاگ دوڑ میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارے آس پاس بیٹھے یہ پرانے لوگ محض بزرگ نہیں، یہ تو چلتی پھرتی کتابیں ہیں، جن کے اوراق پر محبت، صبر، قربانی اور وفا کے ایسے انمول اسباق لکھے ہیں جو کسی اسکول یا کتاب میں نہیں ملتے۔

یہ پرانے لوگ ہی تو ہیں جنہوں نے مٹی سے رشتہ نبھایا، زمین کو کاٹا، پسینہ بہایا اور وہ چھتیں تعمیر کیں جن کے سائے میں ہم آج اطمینان سے سانس لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خواب گروی رکھ کر ہماری حقیقت تعمیر کی۔ انہی کے کندھوں پر سوار ہو کر ہم نے چلنا سیکھا، انہی کے ہاتھوں سے ہم نے روٹی کا پہلا لقمہ کھایا، اور انہی کی دعاؤں کے سائے میں ہم نے زندگی کی تپتی دھوپ برداشت کی۔ مگر آج جب ان کے ہاتھ لرزتے ہیں تو ہم مصروف ہو جاتے ہیں، جب وہ بات کرنا چاہیں تو ہم “بعد میں” کہہ کر نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں شاید یہ احساس ہی نہیں کہ وقت اب ان کے ساتھ نرم نہیں رہا، اور جب یہ چہرے مٹی اوڑھ لیں گے تو جو خلا رہ جائے گا، وہ کسی ہنسی، کسی مصروفیت یا کسی یاد سے بھی کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔

پرانے لوگ دراصل وقت کے خزانے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس شاید کوئی بڑی ڈگریاں یا عالیشان القابات نہیں ہوتے، مگر وہ زندگی کے سب سے بڑے استاد ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ خوشی چیزوں کے انبار میں نہیں، دل کے سکون میں چھپی ہوتی ہے۔ وہ سکھاتے ہیں کہ رشتے دولت سے نہیں، خلوص سے بنتے ہیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ زندگی کا حسن “میں” میں نہیں، بلکہ “ہم” میں پوشیدہ ہے۔ ان کے ہر لفظ کے پیچھے ایک عمر کی مسافت، ایک دل کی تھکن، اور ایک ایسی خاموش دعا ہوتی ہے جو نسلوں کو سہارا دیتی ہے۔ ان کی باتوں میں وہ نرمی، وہ سچائی، اور وہ گہرائی ہوتی ہے جو وقت گزرنے کے بعد بھی دل میں چراغ بن کر جلتی رہتی ہے۔

افسوس، ہم نے اپنے گھروں کو جدید بنا لیا مگر دلوں کی وسعتیں تنگ کر لیں۔ صوفے تو نرم ہو گئے، مگر لہجے سخت اور آنکھیں بےرنگ ہو گئیں۔ روشنی بڑھ گئی مگر اپنائیت مدھم پڑ گئی۔ ٹی وی کے شور نے کہانیوں کی محفل چھین لی، اور موبائل کی چمک نے رشتوں کی گرمی بجھا دی۔ ہم تصویریں تو بےشمار کھینچتے ہیں، مگر یادیں نہیں بنا پاتے۔ اور وہ پرانے لوگ، جو کبھی ہمارے گھروں کی رونق، ہماری باتوں کا مرکز، ہمارے صحن کی روشنی ہوا کرتے تھے۔ اب کمروں کے ایک کونے میں خاموش بیٹھے ہیں، جیسے کوئی پرانی تصویر جسے دیوار پر تو لٹکا دیا گیا ہو مگر دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔

یہ تحریر ان تمام بزرگوں کے نام ہے جنہوں نے اپنی جوانی ہمارے آج کے سکون پر قربان کر دی۔ جن کے قدموں تلے ہماری دعائیں، اور جن کے چہروں پر ہماری کہانیاں لکھی ہیں۔ جو آج بھی اپنی کمزور آواز میں، لرزتے ہاتھوں سے، محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ پوچھتے ہیں: “بیٹا، کھانا کھا لیا؟” — اور پھر خاموشی سے ہمارے لیے دعا مانگتے ہیں۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم ان کے پاس بیٹھیں، ان کی باتیں سنیں، ان کے دل کی دھڑکنوں میں چھپے وقت کو محسوس کریں، ان کے ہاتھ تھام لیں۔ کیونکہ جب یہ ہاتھ چھوٹ جائیں گے، جب یہ آوازیں مٹی اوڑھ لیں گی، تب احساس ہوگا کہ ہم نے زندگی کی سب سے قیمتی دولت کھو دی۔ وہ دولت جو نہ وقت لوٹا سکتا ہے، نہ پیسہ خرید سکتا ہے، نہ شہرت اس کی جگہ لے سکتی ہے۔

یقین مانیں، یہ پرانے لوگ ماضی نہیں، ہمارے آج کا اثاثہ اور آنے والے کل کی بنیاد ہیں۔ ان کے وجود سے گھروں میں برکت، باتوں میں مٹھاس اور دلوں میں سکون رہتا ہے۔ ان کے بغیر معاشرہ خالی ہو جاتا ہے، اور دل ویران صحنوں کی طرح سنّاٹے میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگر ہم نے ان کی قدر نہ کی، تو کل ہماری اولاد بھی ہمیں اسی تنہائی کے حوالے کر دے گی جس میں آج ہم نے اپنے پرانوں کو چھوڑ رکھا ہے۔ یاد رکھو، وقت کبھی ظالم نہیں ہوتا، وہ صرف انصاف کرتا ہے، اور وہ سب کچھ لوٹا دیتا ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔

آؤ، آج ہی ان پرانے لوگوں کے پاس چلیں۔ ان کی پیشانی چُومیں، ان کے ہاتھوں کی لرزش میں وقت کا لمس محسوس کریں، ان کی باتیں سنیں، ان کے ماضی کے قصوں سے اپنے دل کو روشن کریں۔ ان کی آنکھوں میں جھانک کر وہ دعا تلاش کریں جو لفظوں میں نہیں مگر احساس میں بولتی ہے۔
کیونکہ یاد رکھو، پرانے لوگ کبھی ختم نہیں ہوتے، وہ وقت کے ساتھ مٹتے نہیں، بلکہ صدیوں تک دعاؤں، یادوں اور محبت کی خوشبو میں زندہ رہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں