“روشنی کا مہینہ: ربیع الثانی اور حضور سیدنا غوث الاعظمؒ کی روحانی خوشبو و تعلیمات”
از قلم: واجد قریشیؔ (کوپن ہیگن، ڈنمارک)
ربیع الثانی کی نسیم آتی ہے تو ایمان کی فضاؤں میں روشنی کے ستارے جھلملانے لگتے ہیں۔ دلوں میں سکون کے نغمے بکھر جاتے ہیں اور روح پر ایک لطافت کی لہر چھا جاتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس نے اہلِ تصوف اور اہلِ محبت کو ایک ایسا انمول خزانہ دیا جس کی برکتیں وقت کے دریاؤں کو عبور کرتی ہوئی آج بھی قلوب کو منور کر رہی ہیں۔
یہی وہ ساعتیں ہیں جب بغداد کی سرزمین پر نور کا ایک آفتاب طلوع ہوا، “تاجدارِ بغداد، سلطان الاولیاء، محبوبِ سبحانی، حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ”۔
صدیوں کے موسم بدل گئے، سلطنتیں اجڑ گئیں اور زمانے کی گرد چھا گئی۔ مگر آپ کا نام آج بھی چراغِ ہدایت ہے، آپ کی یاد دلوں کی دھڑکن ہے، اور آپ کا فیضان روحوں کو حرارت، دلوں کو تازگی اور زندگی کو اللہ و رسول ﷺ کی محبت سے بھر دیتا ہے۔
حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی زندگی گویا نور و روحانیت کے آفتاب کی مانند تھی۔ آپ 471 ہجری بمطابق 1078-79 عیسوی میں ایران کے شہر جیلان کی مقدس فضاؤں میں تشریف لائے۔ والدہ ماجدہ حضرت اُمّ الخیر فاطمہ رحمہا اللہ نہایت پرہیزگار، نیک سیرت اور اہلِ تقویٰ خاتون تھیں۔ ان کی گود ہی سے آپ کے دل و دماغ میں زہد، طہارت اور اللہ کی محبت کے نقوش ثبت ہوگئے۔
بچپن ہی سے آپ کی روح عبادت و ریاضت کی طرف مائل تھی۔ رمضان المبارک کے دنوں میں دودھ نہ پینا آپ کی اولین کرامت کے طور پر ظاہر ہوا۔ معصوم عمری میں قرآنِ کریم حفظ کیا اور مقامی علما سے فقہ و حدیث کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گویا ہر سانس میں علم و عرفان کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ یہی نورانی بنیادیں آگے چل کر آپ کو تاجدارِ بغداد، سلطان الاولیاء، اور اہلِ عالم و عشق کے محبوب، حضرت غوث الاعظمؒ کے بلند مقام تک لے گئیں۔
جب آپ کی عمر اٹھارہ برس کے قریب پہنچی، تو علم کی پیاس اور روحانی محبت نے آپ کو بغداد کی طرف کھینچ لیا۔ وہ شہرِ علم و عرفان، جہاں ہر گوشہ تصوف اور اللہ کی محبت سے منور تھا۔ وہاں آپ نے جید علما و مشائخ سے فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر علومِ شریعت سیکھے۔ فقہ حنبلی میں مہارت کے اعلیٰ مقام نے آپ کی شخصیت کی بنیاد مضبوط کر دی۔
مگر آپ کی تلاشِ حقیقت صرف کتابوں تک محدود نہ رہی۔ آپ نے کئی برس ریاضت، خلوت، عبادت اور مجاہدہ میں گزارے۔ ہر لمحہ دل و روح کو اللہ کی روشنی سے منور کرنے میں صرف ہوا۔ انہی شب و روز کی محنت نے آپ کو باطن کی اعلیٰ روشنائی عطا کی، روحانی بلندیوں تک پہنچایا، اور آپ عوام و خواص کے لیے مرجعِ کامل بن گئے۔ یہی وہ نور تھا جس نے دنیا کے ہر کونے کو چھو لیا اور آپ کو “غوث الاعظم” یعنی سب سے بڑا سہارا کے لقب سے نوازا۔
آپ کی زندگی کا محور نہ دنیاوی جاہ و جلال تھا اور نہ تخت و تاج کی تمنا۔ آپ کے نزدیک حقیقی بادشاہی وہ ہے جو انسان کو اللہ کی قربت تک پہنچائے اور بندے کو اپنے رب کی معرفت سے مالا مال کرے۔ آپ نے فرمایا کہ شریعت کے بغیر طریقت ادھوری ہے اور طریقت کے بغیر شریعت بے روح ہے۔ آپ کا ہر لفظ، ہر نصیحت، دلوں کو یہی سبق دیتی تھی: “اللہ کے در کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکو۔” یہ کلمات نہ صرف رہنمائی کے چراغ ہیں بلکہ ان روحوں کے لیے روشنی ہیں جو عشقِ الٰہی کی تلاش میں ہیں۔
راتوں کی تنہائی میں آپ کا دل اللہ کی محبت میں غرق رہتا۔ ہر سانس میں عشقِ الٰہی کی خوشبو محسوس ہوتی اور آنکھوں سے جاری آنسو عاجزی و خشوع کی داستان سناتے۔ دعاؤں میں سوز و گداز جھلکتا اور زبان ہر لمحہ اللہ کی حمد و ثناء اور حضور ﷺ کی مدح میں مست رہتی۔ آپ کی روحانی مجالس ایسے نور کے مینار کی مانند تھیں جو حضور ﷺ کے ذکر سے ہر دل کو منور کر دیتی۔ آپ فرماتے تھے: “اللہ کی بارگاہ تک پہنچنے کا سب سے روشن راستہ مصطفیٰ ﷺ کی سنت کی کامل پیروی ہے۔”
کرامات کی بات کی جائے تو آپ کی زندگی گویا ایک بے کنار سمندر ہے، جس کے ہر قطرے میں نور اور رحمت چھلکتی ہے۔ سمندر میں ڈوبا ہوا جہاز آپ کے نام سے نجات پاتا اور پریشانی میں گھرا دل آپ کے فیض سے سکون و راحت حاصل کرتا ہے۔ مگر آپ نے خود فرمایا: “سب سے بڑی کرامت یہ نہیں کہ ہوا پر چل لو یا پانی پر تیر لو، اصل کرامت یہ ہے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھو اور اللہ کی اطاعت پر قائم رہو۔”
آج جب ہم اپنے گرد و پیش کو دیکھتے ہیں، ہر طرف بے سکونی، فتنہ، حرص اور خودغرضی کی لہر دبی ہوئی ہے۔ ایسے میں حضرت غوث الاعظمؒ کی زندگی ایک روشنی کی مشعل ہے، جو دلوں کو جگاتی، روحوں کو بیدار کرتی اور انسان کو اللہ کی محبت کی طرف بلاتی ہے۔ یہ ہمیں صدا دیتی ہے: اللہ پر کامل بھروسہ رکھو، رسول ﷺ کی سنت کی پیروی تھامو، دنیا کی حرص و لالچ کو دل سے نکالو، یتیموں و مظلوموں کا سہارا بنو، اور اپنی زندگی کو سچائی، تقویٰ اور عشقِ الٰہی کے نور سے منور کرو۔
ربیع الثانی کا بابرکت مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کے محبوب بندے کس بے پناہ عشق اور اخلاص کے ساتھ اپنی زندگیاں صرف اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ حضور غوث الاعظمؒ کی حیات ایک روشن پیغام ہے کہ محض ان کی کرامات سننا یا یاد کرنا کافی نہیں۔ اصل محبت اور پیروی تو اس میں ہے کہ ان کی تعلیمات کو دل و جان سے اپنایا جائے۔ دل کو ذکرِ الٰہی کی روشنی سے منور کرو، زبان کو سچائی اور حسنِ سلوک کی خوشبو سے مہکاؤ، اور اعمال کو شریعت کے نور سے آراستہ کر کے حقیقی عشق و محبت کا عملی اظہار دکھاؤ۔
یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو دنیا کی بے سکونی، فتنہ اور غموں کی گرد سے آزاد کرتا ہے، روح کو سکون بخشتا ہے اور آخرت میں اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کی قربت کا ذریعہ بنتا ہے۔ ربیع الثانی کی یہ بابرکت ساعتیں ہمیں نہ صرف یاد دلاتی ہیں بلکہ ایک نرم مگر پُراثر صدا دیتی ہیں کہ دلوں کو بدلنا، زندگی کو نور سے بھرنا اور نفس کو اللہ کی محبت کے لیے وقف کرنا ضروری ہے۔ اسی نور کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے جس نے حضور غوث الاعظمؒ کو دنیا و آخرت میں بلند مقام عطا کیا اور اہلِ دل کے لیے چراغِ ہدایت بن کر روشن کیا۔