رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران یورپی یونین میں پناہ کی درخواستوں میں 23 فیصد کمی

رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران یورپی یونین میں پناہ کی درخواستوں میں 23 فیصد کمی
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سال رواں کی پہلی ششماہی کے دوران دی گئی پناہ کی درخواستوں میں گزشتہ برس کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 23 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ بات یورپی یونین میں پناہ کے ادارے EUAA نے بتائی۔


یورپی یونین کے رکن ملک مالٹا میں قائم اس بلاک کی اسائلم ایجنسی (ای یو اے اے) نے پیر آٹھ ستمبر کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ اس سال 30 جون کو ختم ہونے والی ششماہی میں اس بلاک اور بلاک سے باہر کے دو یورپی ممالک، ناروے اور سوئٹزرلینڈ میں پناہ کی درخواستیں دینے والے تارکین وطن کی تعداد میں یکم جنوری سے لے کر 30 جون تک کے عرصے کے مقابلے میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی۔


اس یورپی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں بھی، جو ایک مدت سے پناہ کی سب سے زیادہ درخواستوں کے حوالے سے مرکزی اہمیت کا حامل رہا تھا، اس سال جنوری سے جون تک ایسی درخواستوں کی تعداد واضح طور پر کم رہی۔
ای یو اے اے کے ڈیٹا کے مطابق سال رواں کی پہلی ششماہی میں ایسی درخواستوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 14 ہزار یا تقریباﹰ 23 فیصد کم ہو گئی۔ اس سے پہلے چھ ماہ کے دوران یہ تعداد تین لاکھ 99 ہزار رہی تھی
ان میں سے سب سے زیادہ درخواستیں فرانس میں دی گئیں، جو 78 ہزار بنتی تھیں۔ فرانس کے بعد 77 ہزار درخواستوں کے ساتھ اسپین دوسرے نمبر جبکہ 70 ہزار درخوست دہندگان کے ساتھ جرمنی تیسرے نمبر پر رہا۔ اٹلی میں 64 ہزار نئی درخواستیں دی گئیں اور وہ چوتھے نمبر پر رہا۔


سب سے زیادہ درخواست دہندگان وینزویلا کے شہری
یورپی یونین کے مطابق شام سے یورپ آ کر پناہ کی درخواستیں دینے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس بڑی تبدیلی کی ایک وجہ شام کے صدر بشار الاسد کا گزشتہ دسمبر میں اقتدار سے ہٹایا جانا بنی۔
اس کے برعکس رواں سال یورپ میں پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں وینزویلا کے شہریوں نے دیں، جن کی مجموعی تعداد 49 ہزار رہی۔ ان کے بعد افغان شہری 42 ہزار درخواستوں کے ساتھ دوسرے اور شامی شہری 25 ہزار نئی درخواستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
وینزویلا کے تقریباً تمام شہریوں نے اپنی درخواستیں اسپین میں جمع کرائیں، جس کی ایک بڑی وجہ زبان و ثقافت کی وہ قربت ہے، جو انہیں ہسپانوی معاشرے میں عموماﹰ جلد گھل مل جانے میں مدد دیتی ہے۔
یورپ میں تارکین وطن کی آمد اور ان کی طرف سے پناہ کی باقاعدہ درخواستیں دیے جانے کا سلسلہ کئی برسوں سے یورپی یونین کے لیے ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے یونین نے شمالی افریقی ممالک کے ساتھ تعاون بھی بڑھایا ہے تاکہ بحیرہ روم کے راستے پناہ کی تلاش میں تارکین وطن کی یورپ میں غیر قانونی آمد کو روکا جا سکے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران ایسے خطرناک سمندری سفر کے دوران ہزارہا انسان مختلف حادثات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں