الہدایہ 2025 انگلینڈ: “روحانیت کی وہ ساعتیں جو دلوں میں اتر گئیں”
تحریر: واجد قریشیؔ(ڈنمارک)
یونیورسٹی آف واروک (University of Warwick) کی خاموش اور پرنور فضاؤں میں جب سورج اپنی آخری کرنیں بکھیر رہا تھا اور افق پر شام کی سرخی پھیلنے لگی تھی، تب ایک اور روشنی دلوں کے اندر اتر رہی تھی۔ یہ روشنی نہ سورج کی تھی، نہ چراغوں کی، بلکہ یہ وہ نور تھا جو اللہ کے ذکر، قرآن کی تلاوت، درودِ پاک کی خوشبو، اور سچی تڑپ سے بہنے والے آنسوؤں سے جنم لیتا ہے۔ یہ وہ روشنی تھی جو روح کو اندر سے جگا دیتی ہے، جو غفلت کے پردے چاک کر دیتی ہے، اور جو دل کو اس کے اصل مرکز، ربِ کریم کی طرف واپس کھینچ لیتی ہے۔
الہدایہ 2025 کا یہ روحانی کیمپ یوں تو تین دن پر محیط تھا، مگر ان دنوں کی ساعتیں یوں لگیں جیسے وقت نے اپنے قدم روک دیے ہوں، جیسے لمحوں نے لمبی سانسیں لینا شروع کر دی ہوں۔ ایسا محسوس ہوا گویا روح نے تھکے ہوئے جسم سے سرگوشی کی ہو: “بس! ذرا ٹھہر جا، اب مجھے سکون کی کچھ سانسیں لینا ہیں… رب کے قدموں میں بیٹھ کر میں اپنے زخموں کو دھونا چاہتی ہوں”۔
یہ محض ایک تعلیمی یا فکری اجتماع نہ تھا، بلکہ ایک حاضری تھی۔ دل کی، روح کی، اور وجود کی۔ جیسے کوئی صوفی سالوں کی خاموش خلوت کے بعد کسی ولی کی نگاہ میں اپنا آپ پا لے۔ جیسے صحراؤں میں بھٹکنے والا مسافر اچانک کسی سبز گوشے پر پہنچ جائے، جہاں سایہ بھی ہو، پانی بھی، اور راستہ بھی۔ یا جیسے کسی بنجر دل پر پہلی بار رحمت کی شبنم نرمی سے گرے، اور وہ دھیرے دھیرے سانس لینا سیکھے۔
یہ سب کچھ کسی عارضی کوشش یا اتفاقی لمحے کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ یہ اس چراغ کی روشنی تھی جسے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کئی دہائیوں قبل محبتِ الٰہی، علمِ نبوی ﷺ اور اخلاصِ نیت کے روغن سے جلایا تھا۔ وہ چراغ جو صرف کتابوں کی روشنی سے نہیں، بلکہ دلوں کی آگہی، سجدوں کی نمی، اور امت کے حال پر ٹپکتے اشکوں سے روشن ہوا۔
ان کی شب بیداریوں کی تھکن، امت کے لیے تڑپتا دل، اور نوجوان نسل کے لیے بےلوث مشنری عزم نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جس نے علم کو عرفان سے جوڑا، اور تعلیم کو تزکیہ سے۔ الہدایہ، دراصل اسی خواب کی تعبیر ہے جو انہوں نے نہ صرف اپنی آنکھوں میں بسایا، بلکہ اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ اس کو سینچا۔ یہ خواب کہ نوجوان صرف ڈگری یافتہ نہ ہوں، بلکہ خدا یافتہ ہوں۔ ایسے نوجوان جو فکرِ دین کے امین، کردار میں صادق، اور روح میں بیدار ہوں۔
شیخ الاسلام کی فکر نے دین کو محض محراب و منبر تک محدود نہ رہنے دیا، بلکہ اسے یونیورسٹیوں کی روشن درسگاہوں، نوجوانوں کے بیدار دلوں، جدید فکر و دانش کے حامل ذہنوں، اور تھکی ہوئی روحوں کی تازگی تک پہنچایا۔ الہدایہ اس عظیم مشن کی زندہ اور متحرک علامت ہے، جو روشنی کی ایک ایسی کرن ہے جو ہر نسل سے دلوں تک، اور ہر دل سے نور کی روشنی تک پھیلتی رہے گی۔ جب تک ان کے عزم کی روشنی، ان کی فکری گہرائی، اور ان کی روحانی ہم آہنگی قائم ہے، ان شاء اللہ، الہدایہ بھی نسل در نسل، دل سے دل تک، نور سے نور تک جاری و ساری رہے گا۔
ڈاکٹرطاہرالقادری نے وہاں صرف علم نہیں بانٹا، بلکہ دلوں کے بند دریچے کھول دئیے۔ ان کی باتیں معلومات نہیں تھیں، بلکہ زندگی کی وہ صدا تھیں جو روح کو جگا دیتی ہے۔ ان کے لہجے میں وہ درد تھا جو صدیوں کی تپسیا سے نکھرا ہوتا ہے، وہ تاثیر تھی جو صوفیاء کے آستانوں پر جھکے سروں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ وہ حکمت تھی جو صرف کتابوں سے نہیں، بلکہ دل کی خلوت، رات کے سجدوں، اور اشکوں کی تپش سے حاصل ہوتی ہے۔
انہوں نے نوجوانوں کو یہ احساس دلایا کہ: “اگر تم رب سے غافل ہو، تو اپنی خاموشی کو ہی صدا بنا لو….. وہ سنتا ہے، وہ ہر دل کی دھڑکن سے واقف ہے۔”
اور اس ایک جملے نے کئی دلوں کو توڑ کر جوڑ دیا۔
ہر نشست میں جب اللہ کا ذکر بلند ہوا، جب قرآن کی کوئی آیت دل پر بجلی کی مانند گری، اور جب دعا کے لیے ہاتھ کانپتے ہوئے اٹھے، تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ محض الفاظ نہیں، بلکہ روح کی گہرائیوں سے نکلی وہ صدائیں ہیں جو عرشِ الٰہی کی طرف پرواز کر رہی ہیں۔ جیسے خاموشیاں بھی کچھ کہہ رہی ہوں، جیسے ہوا میں بھی ایک تسبیح جاری ہو۔ دلوں پر ایسی نرمی اُتری کہ برسوں کی سختی لمحوں میں پگھلنے لگی۔ ایک ایسا سکون، جو عبادت کے سجدوں میں بھی کم کم ملتا ہے، جیسے رب خود دل سے کہہ رہا ہو: “میں ابھی بھی سن رہا ہوں، بس تُو لوٹ آ”۔
آنکھیں بےاختیار برسنے لگیں، مگر ان آنسوؤں میں کوئی شکایت نہ تھی، کوئی غم نہ تھا، یہ خوشی کے آنسو تھے، وہ خوشی جو اس لمحے کی تھی جب بندہ جان لے کہ اس کا رب آج بھی اسے یاد کر رہا ہے۔ دروازے ابھی بھی کھلے ہیں، فاصلے ابھی بھی مٹ سکتے ہیں، اور ہم، ہاں ہم ابھی بھی اس کے اپنے ہیں۔
اس کیمپ کی سب سے نمایاں اور دل میں اتر جانے والی شے روحانی تعلق کی وہ لطیف فضا تھی جو ہر سمت میں محسوس ہوتی تھی۔ ایک ایسا تعلق جو وضو کے ٹھنڈے قطروں میں دھڑک رہا تھا، سجدوں کی مٹی میں رچ بس گیا تھا، اور دعا کے ان خاموش لمحوں میں زندہ تھا جہاں لفظ کم پڑ جاتے ہیں اور دل خود بولنے لگتا ہے۔
بہت سے نوجوانوں نے پہلی بار دل کی زبان میں توبہ کی، لفظوں کے بغیر، صرف کیفیت سے۔ کسی نے رب کو پکارا، کسی نے خود کو پایا، اور کسی نے راستہ… وہ راستہ جو ہمیشہ سے سامنے تھا مگر نظر سے اوجھل، جو صرف اندر کی آنکھ سے دکھائی دیتا ہے۔
یہاں وہ نوجوان بھی تھے جن کی بصیرت سوشل میڈیا کی چکاچوند میں مدھم ہو چکی تھی، وہ طلبہ بھی تھے جو علم تو پڑھ رہے تھے مگر معرفت سے خالی تھے، اور وہ دل بھی جو زندگی کی دوڑ میں تھک کر بےصدا ہو چکے تھے۔ مگر یہاں، اس مقام پر، ان سب کو گویا وہ سِرا مل گیا جس سے رب سے جڑنے والی ڈوری بندھی ہوئی تھی۔ یہاں ہر آنکھ، ہر دل، ہر قدم ایک نئے ذوقِ وصال سے بھر گیا۔ جیسے رب خود کہہ رہا ہو: “آ جا، تو تھک گیا ہے، اور میرا در اب بھی کھلا ہے۔”
یہاں وہ لوگ بھی آئے تھے جنہیں اپنے ایمان کی کمزوری کا دکھ ستا رہا تھا؛ مگر وہ یہاں سے ایسا یقین لے کر اٹھے گویا دل میں چراغ جل اٹھے ہوں۔
وہ بھی آئے تھے جنہیں گناہوں کا بوجھ گھائل کر چکا تھا؛ مگر یہاں، توبہ کے آنسوؤں میں نہا کر وہ یوں ہلکے ہو گئے جیسے زندگی نے دوبارہ آغاز لے لیا ہو۔
اور کچھ ایسے بھی تھے جن کے لیے دین محض ایک نصابی مضمون تھا؛ مگر یہاں انہوں نے دین کو سانس لیتے، دل دھڑکاتے، اور آنکھیں نم کرتے دیکھا۔ دین کو زندگی کی حقیقت بنتے دیکھا۔
یہاں تعلق صرف باتوں سے نہیں، بلکہ لمحوں، کیفیات اور سکوت کی گہرائی سے قائم ہوا۔ اور یہی وہ تعلق ہے جو دل کو پلٹنے پر آمادہ کرتا ہے، اور روح کو اپنے خالق سے جوڑ دیتا ہے — ہمیشہ کے لیے۔
الہدایہ 2025 کوئی وقتی لمحہ نہ تھا، بلکہ یہ ایک نیا باب تھا۔ ایک ایسا باب جو کھلتے ہی بہت سوں کو ان کی اصل پہچان تک لے گیا۔ یہ محض ایک اجتماع نہیں، بلکہ ایک آئینہ تھا جس میں ہر دل نے اپنا باطن دیکھا، اپنی پیاس کو پہچانا، اور رب کی طرف لوٹنے کی خواہش کو جاگا ہوا پایا۔
یہاں یہ حقیقت دلوں پر نقش ہوئی کہ روح کی تشنگی صرف عبادات کی ظاہری ادائیگی سے نہیں بجھتی، بلکہ وہ تب بجھتی ہے جب نیت میں اخلاص ہو، دل میں طلب ہو، مجلس میں اہلِ دل ہوں، اور زبان پر ذکر کے ساتھ ساتھ دل میں صدق کا چراغ روشن ہو۔
انسان جب اپنی اندرونی دنیا کی صفائی کرتا ہے۔ غرور، غفلت، حسد اور خودفریبی کی گرد کو دھو دیتا ہے۔ تو پھر باہر کی دنیا اسے یکایک روشن لگنے لگتی ہے۔ حقیقت کے رنگ واضح ہونے لگتے ہیں، اور زندگی کا ہر موڑ قربِ الٰہی کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے۔
الہدایہ نے یہ سب یاد دلا دیا۔ نرمی سے، خاموشی سے، مگر پوری گہرائی کے ساتھ۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
رخصت ہوتے لمحوں میں قدم جیسے بوجھل ہو گئے تھے، دل نرم، آنکھیں نم، اور فضاء میں ایک خاموش سی دعا معلق تھی۔ جانے والوں کے چہروں پر وہ سکوت تھا جو صرف رب کی حضوری کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں ایک نیا عہد دھڑک رہا تھا۔ کہ اب زندگی محض جینے کا نام نہیں، بلکہ اللہ کی رضا میں ڈھلنے کا عمل ہوگی۔ اب لب صرف سچ بولیں گے، اور زبان صرف حق کی گواہی دے گی۔
ان کے ارادوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ہر قدم، ہر سوچ، ہر سانس صرف اس راہ پر چلے گی جس کی منزل اللہ کی رضا، اس کی قربت، اور اس کی خوشنودی ہو۔ یہ واپسی، صرف جگہ کی واپسی نہ تھی۔ یہ ایک نئی زندگی کی طرف سفر کا آغاز تھا۔
الہدایہ 2025 کا اختتام تو ہو گیا، مگر وہ لمحے کہیں ختم نہیں ہوئے۔ وہ سجدے جو دل کی گہرائی سے ادا ہوئے، وہ ندامت سے بھیگی راتیں، وہ دعاؤں کے خاموش اور لرزتے ہوئے لمحات، وہ سب اب بھی کہیں دل کی کسی نرم پرت میں سانس لے رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے وہ ساعتیں وقت کا حصہ نہیں، روح کا حصہ بن چکی ہیں۔ اور شاید زندگی کے ہر موڑ پر، ہر تھکن، ہر تذبذب میں وہی لمحے ہمیں پکاریں گے… نرمی سے، خاموشی سے، محبت سے ۔۔۔۔ واپس آ جا… اپنے رب کی طرف۔