جبر کی شکار، حوصلے کی علامت: جزیل کے لیے فرانس کا اعلیٰ تمغہ
وہ نہ جاگی، نہ چیخی، نہ لڑ سکی کیونکہ اُسے خبر ہی نہ تھی کہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن جب سچ سامنے آیا، تو تقریباً دو سو مرتبہ ریپ کا نشانہ بننے والی اس خاتون کی خاموشی ہی انصاف کی آواز بن کر گونج اٹھی۔
یہ کہانی ہے ایک ایسی فرانسیسی خاتون کی، جس کے خاوند نے انہیں مدہوش کر کے اجنبیوں کے ہاتھوں کم از کم دو سو مرتبہ ریپ کروایا۔ جزیل ڈومینیک نے جس انداز میں اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف قانونی جنگ لڑی، اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔
جزیل کی ہمت اور عزم کو سراہتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے انہیں اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ ” لیجن آف آنر‘‘ دینے کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں عدالت نے جزیل کے سابق شوہر ڈومینیک پیلیکوٹ پر الزامات ثابت ہو جانے پر انہیں بیس برس کی سزائے قید سنائی تھی۔ ساتھ ہی ایسے پچاس افراد کو بھی سزائیں سنائی گئی تھیں، جو جزیل کے ریپ کے مرتکب ہوئے تھے۔
اس اہم کیس میں سزاؤں کے فیصلے کے بعد فرانس میں جنسی زیادتی کے اب تک کے سب سے بڑے مقدمے کا خاتمہ ممکن ہوا، جس کی وجہ سے نہ صرف فرانس بلکہ تمام دنیا حیرت میں مبتلا رہی۔ عدالت میں ثابت ہوا کہ ڈومنیک نے اپنی اہلیہ جزیل کے ساتھ یہ جرائم سن دو ہزار گیارہ تا دو ہزار بیس جاری رکھے۔
ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون جزیل کو فرانس کا اعلٰی شہری اعزاز کیوں دیا گیا؟
جزیل نہ صرف یہ مقدمہ جیتیں بلکہ انہوں نے ہمت کی ایک مثال بھی قائم کی۔ اس کیس کی وجہ سے فرانس میں ریپ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
جزیل کے بقول اس مقدمے کو عوامی سطح پر لانے پر انہیں ”کبھی بھی کوئی پچھتاوا‘‘ نہیں ہوا۔ انہوں نے اسے ”ہم سب کی مشترکہ جدوجہد‘‘ قرار دیا ہے۔
جزیل اب فرانس میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے لیے ایک علامت بن چکی ہیں۔ اسی لیے پیرس حکومت نے ”باستیل ڈے‘‘ یعنی فرانس کے قومی دن کی تقریبات کے دوران جزیل کو اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ سے نوازنے کا فیصلہ کیا۔
جزیل 588 ویں شخصیت ہیں، جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ باستیل ڈے چودہ جولائی کو منایا جاتا ہے۔
ریپ کا یہ کیس اتنا اہم کیوں بن گیا؟
اس کیس کے عالمی سطح پر نمایاں ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرہ خاتون جزیل نے اس مقدمے کی کارروائی عوامی سطح پر کرنے کی سفارش کی تھی۔
انہوں نے عدالت کے سامنے جب بتایا کہ ان کے شوہر انہیں نشہ آور ادویات دے کر مدہوش کرتے اور اجنبیوں کو بلا کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرواتے تھے، تو یہ کیس عالمی سطح پر نمایاں ہو گیا۔
اور پھر جب یہ بات عدالت میں ثابت ہوئی کہ تقریباً ایک دہائی تک یہ عمل جاری رہا اور کم از کم بہتر افراد نے تقریباً دو سو مرتبہ جزیل کے ساتھ ریپ کیا گیا تو دنیا دہل کر رہ گئی۔ جزیل کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کی عمریں چھبیس سے بہتر سال کے درمیان تھیں۔
جزیل کے ساتھ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں سے پچاس مجرمان کو تین سے پندرہ سال کی سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔ اس مقدمے کے اختتام پر فرانسیسی سینٹ نے ایک بل منظور کیا، جس کے مطابق اب رضامندی کے بغیر جنسی عمل کو ریپ قرار دے دیا گیا ہے۔
اس کیس کو جیتنے کے بعد جزیل نے کہا تھا، ”یہ وقت ہے کہ وہ مردانہ حاکمانہ، پدرانہ معاشرہ جو زیادتی کو معمولی سمجھتا ہے، تبدیل ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جنسی زیادتی کو دیکھنے کا اپنا نظریہ بدلیں۔‘‘
ڈومینیک قانون کے شکنجے میں کیسے آئے؟
ڈومینیک پیلیکوٹ سن 2020ء میں اس وقت پولیس کی نظر میں آئے، جب وہ ایک سپر مارکیٹ میں خواتین کی اجازت کے بغیر خفیہ انداز میں ان کی نازیبا تصاویر لینے کی کوشش میں گرفتار کیے گئے تھے۔
جب پولیس نے ڈومینیک کے گھر کی تلاشی لی تو ان کے کمپیوٹر سے بیس ہزار سے زائد فحش تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ ان میں جزیل کی کئی ویڈیوز اور تصاویر بھی شامل تھیں۔
جزیل اس وقت تک اپنے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات سے بے خبر تھیں کیونکہ ڈومینیک انہیں نشہ آور ادویات دے کر ان کا ریپ کروایا کرتے تھے۔ ڈومینیک نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ اجنبیوں کو ترغیب دیتے تھے کہ وہ جزیل کے ساتھ جنسی عمل کریں اور فحش زبان استعمال کریں۔
اس انکشاف کے بعد پولیس نے تفتیش کا عمل آگے بڑھایا تو کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی۔ جب جزیل نے پہلی مرتبہ اپنی ایسی ایک تصویر دیکھی تو شدید صدمے کا شکار ہو گئی تھیں۔ تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اب وہ ایسی ہی متاثرہ خواتین کو انصاف دلوانے کے لیے اُمید کی ایک کرن بن چکی ہیں۔
اس جرم کے محرکات واضح نہ ہو سکے
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بات تو واضح ہو گئی کہ وہ اپنی اہلیہ سے سیکس کرنے کے لیے اجنبیوں سے پیسے نہیں لیتا تھا۔
تاہم اس کیس کو غور سے پرکھنے والے ماہرین نفسیات کے مطابق مجرم جنسی تسلط، ذلت اور اپنی اہلیہ کو اپنی ملکیت سمجھنے جیسے منفی جذبات سے سرشار تھا۔ بچپن کے صدمات، طبقاتی احساس کمتری اور بیمار ذہنی خیالات نے ڈومینیک میں ایک خطرناک شخصیت کو جنم دیا۔
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈومینیک کو نو برس کی عمر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ نوجوانی میں اس نے گینگ ریپ کے واقعات بھی دیکھے تھے۔
عدالتی کارروائی کے دوران ڈومینک خاموش رہا اور کبھی یہ نہیں بتایا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ یہی خاموشی جزیل اور پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا سوال بن ہوئی ہے۔