“آئیے، ارضِ کربلا چلتے ہیں… جہاں وقت تھم گیا، اور حق کی صدا صدیوں تک گونجتی رہی” تحریر: واجد قریشیؔ

“آئیے، ارضِ کربلا چلتے ہیں… جہاں وقت تھم گیا، اور حق کی صدا صدیوں تک گونجتی رہی”

تحریر: واجد قریشیؔ

گرد و غبار میں ڈوبی، سورج کی تپش سے دہکتی ہوئی وہ سرزمینِ کربلا، جہاں ریت کے ہر ذرّے میں شہادت کی خوشبو گھلی ہوئی ہے، جہاں ہوا آج بھی سسکیاں لیتی محسوس ہوتی ہے۔ آئیے، لمحہ بھر کو وقت کے پردے ہٹا دیں، تاریخ کی سانس روکتے ہوئے اس لمحے میں داخل ہوں جو صدیوں سے دلوں کو ہلا رہا ہے۔ یہ ہے 61 ہجری، محرم کی دسویں صبح، عاشورا کا دن اور ارضِ کربلا…

ہم آنکھیں بند کرتے ہیں… اور دل کی دھڑکن جیسے تھم سی جاتی ہے۔ اب محسوس کیجیے… فضا میں وہ خاموشی چھا چکی ہے جو طوفان سے پہلے کے سکوت جیسی ہے، جیسے چیخوں کی گونج سے پہلے ایک لمحے کے لیے ساری کائنات ساکت ہو گئی ہو۔ ہوا رک چکی ہے، فضائیں لرز رہی ہیں، اور وقت خود سانس روکے کسی اٹل فیصلے کا منتظر ہے۔ سامنے ایک ویران، سنسان میدان ہے “کربلا کا تپتا ہوا سینہ” اور اُس کے کنارے ایک مختصر سا قافلہ، جو مسافتوں سے تھکا ہوا ہے، پیاس سے نڈھال ہے، مگر اُن کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک، ایک ایسا یقین جھلک رہا ہے جو صرف حق پر قائم رہنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ قافلہ چھوٹا ضرور ہے، مگر اُس کے ارادے صدیوں کو جھنجھوڑنے والے ہیں۔

یہ کوئی عام قافلہ نہیں۔ نہ اس کے پاس تلواروں کی بھرمار ہے، نہ لشکروں کی حمایت، نہ دنیاوی طاقت، نہ وسائل۔۔ مگر اس قافلے کے پاس جو ہے، وہ پوری تاریخ کو بدل دینے کے لیے کافی ہے: یقین، صبر، اور حق پر اٹل ایمان۔ یہ قافلہ ہے حسینؑ ابنِ علیؑ کا، نواسۂ رسول ﷺ، جن کے قدموں تلے وہی تپتی ہوئی ریت ہے جو کچھ ہی لمحوں میں مقتلِ کربلا کہلائے گی، اور جسے ان کے لہو کی مہک قیامت تک روشن رکھے گی۔ اس قافلے میں معصوم بچے ہیں، بےقرار پیاس سے تڑپتی نگاہیں ہیں، ماؤں کی ممتا، بہنوں کی قربانی، جوانوں کا جذبہ، اور حق کا وہ پرچم ہے جو کسی یزید کی بیعت میں کبھی سرنگوں نہیں ہوتا۔ یہاں ہر چہرہ، ہر نگاہ، ہر سانس یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہم باطل کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ چاہے نیزے سینے چیر ڈالیں، یا تپتی زمین پیاس سے جسم نڈھال کر دے، مگر سر صرف سجدۂ حق میں جھکے گا، ظلم کے دربار میں نہیں۔

یہ لمحہ وہ ہے جہاں کائنات تھم گئی ہے، زمین نے سجدہ کیا ہے، اور آسمان گواہ ہے کہ حق و باطل کا سب سے عظیم معرکہ برپا ہونے کو ہے۔

یہ حسینؑ ہیں نواسۂ رسول ﷺ، وہ چراغِ ہدایت جو ظلمت کے ہر دور میں روشن رہا۔ جن کے لبوں پر گونجتا ہے وہ اعلانِ عزت: “لا والله لا عظیم بیدی اعطاء الذليل ولا اقراقرار العبید”
یعنی: “نہیں! خدا کی قسم ! میں تمہارے ہاتھ میں ذلیلوں کی طرح ہاتھ نہیں دوں گا، اور نہ غلاموں کی طرح تمہاری بیعت کو تسلیم کروں گا” (امام حُسینؑ)

یہ صرف الفاظ نہیں، ایک ایسا اٹل فیصلہ ہے جو قیامت تک مظلوموں کو حوصلہ دیتا رہے گا۔ ان کے گرد معصوم بچے ہیں، وفادار جوان ہیں، باحیا عورتیں ہیں، اور ان سب کے درمیان ایک ایسی سچائی سانس لے رہی ہے جو کسی جابر کے دربار میں کبھی جھک نہیں سکتی۔ حسینؑ کا وجود صرف ایک فرد نہیں، وہ ایک موقف ہے، ایک صدا ہے، ایک قیامت تک زندہ رہنے والا اعلان ہے کہ حق کو خریدنا ممکن نہیں، اور عزتِ ایمان پر سودے بازی نہیں ہو سکتی۔

سامنے ایک ظاہری طاقت سے لبریز لشکر کھڑا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں سپاہی، چمکتی ہوئی زرہیں، خون کے پیاسے نیزے، تیز دھار تلواریں، اور اُن آنکھوں میں حرص کی چمک جو دنیا کی حکومت کے نشے میں اندھی ہو چکی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب بس ایک دن کا معرکہ ہے، ایک معمولی بغاوت جسے طاقت سے کچلا جا سکتا ہے۔ مگر اُنہیں کیا معلوم کہ وہ جس کے سامنے صف آرا ہیں، وہ کوئی عام بغاوت نہیں بلکہ حق کا وہ عَلَم ہے جو سر کٹوا سکتا ہے، مگر جھک نہیں سکتا۔ وہ نہیں جانتے کہ جس کے خلاف وہ کھڑے ہیں، وہ وقت کے دھارے کو موڑنے آیا ہے، وہ تاریخ کا وہ موڑ ہے جہاں باطل اپنی مکمل طاقت کے باوجود ہمیشہ کے لیے رسوا ہو جائے گا، اور حق، بے سروسامانی کے باوجود، ہمیشہ کے لیے سرخرو ٹھہرے گا۔

اس لشکر کے سامنے ریت کی تپتی ہوئی چادر پر ایک ایک کر کے سپاہی روانہ ہو رہے ہیں۔ علی اکبرؑ، قاسمؑ، عباسؑ… ہر ایک اپنے ایمان، وفا اور قربانی کی بلند ترین مثال قائم کرتا ہے۔ کوئی دلہن کا خواب لیے شہادت کی آغوش میں جاتا ہے، تو کوئی بھائی کے قدموں میں جان نچھاور کرتا ہے۔ عباسؑ، جن کے بازو قلم ہو گئے، مگر سقّا کہلانے کا شرف نہ چھینا جا سکا، اور علی اکبرؑ، جن کا چہرہ رسولِ خداﷺ کا عکس تھا، جب نیزوں اور تیروں سے چھلنی ہو کر واپس آتا ہے تو حسینؑ کا کلیجہ لرز جاتا ہے۔ وہ لاشیں جو لوٹتی ہیں، وہ فقط جسم نہیں ہوتیں۔ وہ ایک ایک کر کے وفا، غیرت، صبر اور عشق کی داستانیں رقم کر رہی ہوتی ہیں۔ ہر شہادت کے بعد خیموں میں سناٹا مزید گہرا ہو جاتا ہے، مگر حسینؑ کا صبر پہاڑ سے بلند تر، اور ایمان پہلے سے زیادہ روشن نظر آتا ہے۔

حسینؑ کا صبر، زینبؑ کا ضبط، اور سکینہؑ کی پیاس۔۔ یہ صرف تاریخ کے واقعات نہیں، بلکہ روح پر لگنے والی ایسی گہری چوٹیں ہیں جن کا درد لفظوں میں سمویا نہیں جا سکتا، صرف دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ زینبؑ، جو علیؑ کی بیٹی اور فاطمہؑ کی پرورش یافتہ ہیں، ہر لاشے کو دیکھ کر بھی لبوں پر شکوہ نہیں لاتیں، بلکہ صبر کی وہ چٹان بن جاتی ہیں جو کربلا کی سب سے بلند علامت بن کر اُبھرتی ہے۔ سکینہؑ، جو معصوم پیاس کی تصویر ہے، تپتی زمین پر باپ کی راہ تکتی ہے، مگر کبھی شکایت زبان پر نہیں لاتی۔ اور حسینؑ… وہ اپنے ہاتھوں سے جوان بیٹے، بھائی، بھتیجے، اور وفادار ساتھیوں کے لاشے اٹھاتے ہیں، مگر پھر بھی رضائے الٰہی پر راضی رہتے ہیں۔ یہ وہ درد ہیں جو جسم سے نہیں، روح سے نکلتے ہیں۔ ایسے زخم، جو تاریخ کے صفحوں میں نہیں، دلوں کی دھڑکنوں میں زندہ رہتے ہیں۔

اب ذرا پل بھر کو خاموش ہو جائیے… دل کی گہرائیوں میں اُتر کر سننے کی کوشش کیجیے… کیا آپ کو کوئی صدا سنائی دے رہی ہے؟
“هَلْ مِنْ نَاصِرٍ يَنْصُرُنَا؟”
کیا کوئی ہے جو ہماری مدد کو آئے؟
یہ صرف ایک سوال نہیں، یہ کربلا کے میدان سے اٹھنے والی وہ گونج ہے جو وقت کی دیواریں چیرتی ہوئی آج تک دلوں میں لرزش پیدا کر دیتی ہے۔ یہ صدا صرف عاشور کے دن تک ہی محدود نہیں رہی، یہ ہر اُس لمحے میں گونجتی ہے جب ظلم کا راج ہوتا ہے، جب سچائی کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، جب ضمیر کو خریدا جاتا ہے اور حق کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ صدا ہر دور کے یزیدی نظام کے خلاف حسینؑ کی آواز بن کر بلند ہوتی ہے۔ اور آج بھی، جب ایک باضمیر دل اسے سنتا ہے، تو بے اختیار لب ہلتے ہیں:
“لبیک یا حسینؑ!”
یہ لبیک فقط جذبات نہیں، یہ ایک عہد ہے، ایک اعلان ہے کہ جہاں بھی حق پکارے گا، وہاں حسینؑ کے ماننے والے سینہ سپر ہوں گے۔

کربلا محض ایک جگہ کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسی کیفیت ہے جو دل کے سب سے گہرے زخموں کو چُھو جاتی ہے، ایک ایسا لمحہ ہے جب روح میں درد کی لہریں اٹھتی ہیں اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر انسان کے دل میں خود سے اٹھتا ہے: اگر میں اُس کربلا کے میدان میں ہوتا تو کہاں کھڑا ہوتا؟ کربلا صرف تاریخ کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ آواز ہے جو آج بھی ہمارے اندر جھانکنے، اپنے ضمیر کو پرکھنے اور اپنی حقیقت کو جانچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی پکار ہے جو ہر دل میں گونجتی ہے، اور ہر انسان سے اپنے ایمان، حوصلے اور حق کے لیے قربانی دینے کی ہمت طلب کرتی ہے۔

پس، اے دوستو، جب بھی زندگی کے فیصلے کا لمحہ آئے، کربلا کو اپنے دل کی گہرائیوں میں بسا لینا۔ جب بھی سچ اور جھوٹ کے درمیان کشمکش ہو، حسینؑ کی بے مثال قربانی کو یاد کرنا اور اپنے ایمان کو اُس روشنی سے منور کرنا۔ جب بھی ظلم کی گونج میں حق کی آواز دبائی جائے، تب اپنے دل کو وہی عزم عطا کرنا جو حسینؑ نے ہمیں دیا۔ “لا ذلت” کا نعرہ بن کر گونجنا، سر نہ جھکانے کا عہد نبھانا۔

یہ تحریر صرف ماضی کی یاد نہیں،
بلکہ ایک زندہ عہد ہے،
ایک ایسا وعدہ ہے جو ہر نسل کو اپنے اندر حق اور عدل کے لیے کھڑا ہونے کی طاقت دیتا ہے۔ کہ کربلا کوئی محض کہانی نہیں، بلکہ وہ زندہ صداقت ہے جو وقت کے ہر پل میں ہمارے دلوں کو جگاتی رہتی ہے۔ آئیے، پھر سے چلیں اُس راہ پر، دوبارہ کربلا کی راہوں میں، جہاں ہر قدم حق کے لیے اٹھایا گیا ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں