“حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ — محبت، فقر اور انسانیت کا مینارِ نور”

“حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ — محبت، فقر اور انسانیت کا مینارِ نور”

تحریر: واجد قریشیؔ

برصغیر کی روحانی تاریخ ایسے بےشمار روشن چراغوں سے مزین ہے جنہوں نے دلوں کو علم، اخلاص اور اخلاق کی روشنی سے منور کیا۔ ان ہستیوں میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا مقام سب سے منفرد، روشن اور دائمی ہے۔ آپ صرف ایک صوفی بزرگ ہی نہیں بلکہ محبت، فقر، انسانیت اور عشقِ الٰہی کے ایسے مینارِ نور ہیں جس کی روشنی صدیوں بعد بھی قلوب کو منور کر رہی ہے۔

حضرت بابا فریدؒ 569 ہجری (1173ء) میں موجودہ افغانستان کے علاقے کُھتوال میں ایک معزز قریشی خاندان میں پیدا ہوئے۔ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے جا ملتا ہے، اور اسی نسبت نے آپ کی روحانی شخصیت میں ایک الگ جاذبیت پیدا کی۔ ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی جہاں اُس وقت علومِ اسلامیہ، فقہ، حدیث اور تصوف کا خوب چرچا تھا۔ ملتان کے معروف علما اور صوفیا، خصوصاً شیخ جلال الدین بخاریؒ کی صحبت سے آپ نے علمی اور روحانی فیض پایا۔ یہیں سے وہ سفر شروع ہوا جو بالآخر اجودھن (موجودہ پاکپتن شریف) میں ایک روحانی مرکز کی بنیاد بن گیا۔

اپنی روحانی تکمیل کے لیے آپ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے دستِ بیعت میں شامل ہو کر مجاہدہ، ذکر، مراقبہ اور فنا فی اللہ کی منازل طے کیں۔ ان کی زیرِ تربیت، حضرت بابا فریدؒ نے سلوک کے ہر مرحلے کو غیر معمولی اخلاص، صدق، اور عاجزی کے ساتھ عبور کیا، یہاں تک کہ خواجہ قطب الدینؒ نے انہیں اپنی خلافت سے نوازا۔ یہ اعتماد صرف رسمی نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی روحانی وراثت کا عطیہ تھا جو بعد ازاں برصغیر میں چشتی سلسلے کی بنیاد بنا۔

اجودھن کی سرزمین پر جب آپ نے خانقاہ قائم کی، تو وہ محض ایک روحانی ٹھکانہ نہیں بلکہ انسان دوستی، خدمتِ خلق، تحمل، درگزر اور اخلاص کا زندہ مرکز بن گئی۔ ہزاروں طالبانِ حق آپ کے دامن سے وابستہ ہو کر سلوک و طریقت کے مدارج طے کرتے گئے۔ ان میں حضرت نظام الدین اولیاءؒ جیسے عظیم روحانی رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے خود اعتراف کیا کہ جو نور ان کے باطن میں اُترا، وہ حضرت بابا فریدؒ کی صحبت اور تربیت کا نتیجہ تھا۔ چشتی سلسلہ اسی نسبت سے دہلی اور شمالی ہند میں پھیلا، اور ایک ایسا روحانی کارواں بن گیا جو آج تک جاری ہے۔

بابا فریدؒ کی خانقاہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر مذہب، رنگ و نسل کے انسانوں کے لیے ایک ایسا مرکز بن گئی جہاں انسانیت سب سے پہلی اور آخری پہچان تھی۔ ان کی پنجابی شاعری نے نہ صرف زبان کو روحانی تاثیر دی بلکہ دلوں کو جھنجھوڑ کر حقیقت کی طرف مائل کیا۔ وہ سادگی، فقر اور بےنیازی کی جو تعلیم دیتے، اس میں دکھاوا نہیں تھا بلکہ سچائی کا خالص نور تھا۔ ان کے اشعار میں اللہ سے قربت، دنیا سے بےنیازی اور محبت کے خالص جذبات نظر آتے ہیں۔

ان کا مشہور شعر:
“فریدا وسے رب دا ناں، دل وچ وسے مولا
جے کر دل وچ رب نہ وسے، کچیاں کلّاں والا”
اس میں صرف الفاظ نہیں، بلکہ پورا ایک فلسفہ چھپا ہوا ہے۔ انسان کی اصل حیثیت اس کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کے باطن سے جانی جاتی ہے — اور وہ باطن اگر رب سے خالی ہو تو انسان مٹی کا کھلونا ہی ہے۔

بابا فریدؒ کیوں “بابا” کہلائے؟ یہ محض ایک تعظیمی لقب نہیں، بلکہ ان کے کردار کی وہ جھلک ہے جو رہنمائی، مہربانی، قربانی، اور روحانی باپ کی صورت میں سامنے آئی۔ ان کی خاموشی بھی نصیحت تھی اور گفتگو میں بھی معرفت کے دریا بہتے تھے۔ ان کی خانقاہ میں بھوکے سیراب ہوتے، مسافر پناہ پاتے، اور دل سکون۔ ان کی زندگی خدمت، عبادت اور درویشی میں گزری، اور ان کا ہر عمل مخلوقِ خدا کی راحت کے لیے وقف رہا۔

آج بھی جب ماہِ محرم میں ان کا عرسِ مبارک پاکپتن شریف میں منعقد ہوتا ہے، تو لاکھوں عقیدت مند دنیا بھر سے وہاں حاضر ہوتے ہیں۔ یہ روحانی اجتماع صرف رسمی حاضری نہیں بلکہ دلوں کی تجدید، روحانی وابستگی، اور پیغامِ فرید کی عملی تعبیر ہوتا ہے۔ لوگ وہاں سے فقط دعا نہیں، بلکہ ایک روحانی عہد لے کر لوٹتے ہیں کہ محبت، اخلاص، درگزر اور خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں گے۔

بابا فریدؒ کی تعلیمات میں کوئی تفریق، تعصب یا نفرت نہیں — صرف اخلاص، انسان دوستی اور عاجزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکھوں کے پہلے گرو، گرو نانک دیو جی نے بھی ان کے کلام کو اپنی تعلیمات میں شامل کیا۔ ان کا پیغام ہر دور، ہر نسل، ہر مذہب کے لیے یکساں طور پر مؤثر، زندہ اور قابلِ عمل ہے۔

آج کی دنیا جس نفرت، انتشار اور بےحسی کا شکار ہے، وہاں بابا فریدؒ کے پیغام کی گونج مزید ضروری محسوس ہوتی ہے۔ اگر ہم ان کی تعلیمات کو صرف الفاظ کی حد تک نہ رکھیں بلکہ اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا لیں، تو یہی ان کے لیے سچا خراجِ تحسین ہوگا۔ ان کا پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ: فقر اختیار کرو مگر غرور نہ کرو، محبت کرو مگر شرط کے بغیر، اور خدمت کرو مگر دکھاوے کے بغیر۔

حضرت بابا فریدؒ کا فیضان ایک ایسا چشمہ ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے — محبت، امن، انسانیت اور روحانیت کا وہ لازوال خزینہ جو ہر دل کو سیراب کرتا ہے، اور جس سے وابستہ ہو کر ہم آج بھی روشنی پا سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں