غزہ کے بغیر غزہ پر فیصلے — پائیدار امن یا نئے بحران کی بنیاد؟
تجزیہ : واجد قریشی (ڈنمارک)
عالمی سیاست کا ایک تلخ مگر مسلسل دہرایا جانے والا منظر یہ ہے کہ جب بھی کسی تنازعے کو “جلد ختم کرنے” کی بات کی جاتی ہے، تو اس کے پس منظر میں امن کی خواہش سے زیادہ، طاقتور ریاستوں کے تزویراتی، معاشی اور سفارتی مفادات گونجتے ہیں۔ غزہ میں جاری حالیہ جنگ اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے، جہاں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے آئندہ دو ہفتوں میں جنگ بندی تک پہنچنے کی کوشش کو انسانی ہمدردی کے ایک عمل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر اس کوشش کی ساخت پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس پورے عمل میں نہ تو غزہ کے کچلے ہوئے عوام کی آواز شامل ہے، اور نہ ہی ان کی نمائندہ قیادت کو کسی سنجیدہ مشاورت میں شریک کیا گیا ہے۔ امن کے نام پر جو منصوبہ تیار ہو رہا ہے، وہ ایک بار پھر ان لوگوں کی عدم موجودگی میں ترتیب دیا جا رہا ہے جو اس المیے کے سب سے بڑے فریق ہیں۔ یہی وہ بنیادی خامی ہے جو اس نام نہاد ’امن‘ کو غیر مستحکم اور غیر معتبر بنا دیتی ہے۔
یہ طرزِ عمل کوئی نئی اختراع نہیں، بلکہ وہی پرانا اور تلخ سیاسی معمول ہے جو 1948 سے بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ کئی دہائیوں سے عالمی سفارتی میزوں پر زیرِ بحث آتا رہا ہے، مگر اس کے حل کی کوششیں ہمیشہ ان قوتوں کی ترجیحات کی روشنی میں کی گئیں جنہوں نے زمینی حقائق، تاریخی ناانصافیوں، اور مقامی آبادی کے سیاسی و انسانی حقوق کو یا تو نظرانداز کیا یا شعوری طور پر پسِ پشت ڈال دیا۔ 1993 کے اوسلو معاہدے سے لے کر 2020 کے ابراہام معاہدوں تک، ہر بار فلسطینیوں کو یا ثانوی حیثیت دی گئی، یا مکمل طور پر فیصلہ سازی کے دائرے سے باہر رکھا گیا۔ آج غزہ میں جاری جنگ کے دوران جنگ بندی سے متعلق جاری گفت و شنید بھی اسی تاریخی پیٹرن کا تسلسل ہے۔ ایک ایسا مکالمہ جس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے فریق کی آواز سرے سے شامل ہی نہیں۔
موجودہ صورتحال میں امریکہ کا کردار غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اور شاید سب سے زیادہ متنازع بھی۔ ایک جانب واشنگٹن انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور عالمی امن کے نعرے بلند کرتا ہے، تو دوسری جانب وہ اسرائیل کو مسلسل فوجی، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی بیشتر قراردادوں کو ویٹو کر کے، امریکہ نے کئی بار عالمی انصاف کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی ہے۔ یہ تضاد صرف سفارتی سطح تک محدود نہیں رہا؛ اس نے فلسطینی شعور میں ایک گہری بے اعتمادی کو جنم دیا ہے۔ ایک ایسا یقین جو وقت کے ساتھ زخم کھا کھا کر پختہ ہو چکا ہے: کہ عالمی نظامِ انصاف، درحقیقت طاقتور کے حق میں ایک پردہ ہے، نہ کہ مظلوم کے لیے کوئی ڈھال۔
اسرائیل کے لیے یہ جنگ صرف حماس کے خلاف ایک عسکری مہم نہیں، بلکہ اس کے سرکاری بیانیے کے مطابق یہ ایک وسیع تر “دہشت گردی کے خاتمے” کا منصوبہ ہے — ایک ایسا بیانیہ جو پورے غزہ کو اجتماعی ہدف، اور ہر شہری کو ممکنہ خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسی تصور نے پورے علاقے کو ایک کھلے میدانِ جنگ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں اسپتال، اسکول، رہائشی عمارتیں، حتیٰ کہ امدادی کارکن اور صحافی بھی بمباری سے محفوظ نہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی منظم تباہی، اور بچوں کی شہادتیں، اس جنگ کو محض عسکری کارروائی نہیں رہنے دیتیں، بلکہ اسے ایک گہرے انسانی المیے میں تبدیل کر دیتی ہیں۔
اس کے باوجود جب جنگ بندی کی بات کی جاتی ہے، تو وہ صرف بندوقوں کی خاموشی تک محدود رہتی ہے۔ متاثرہ شہریوں کی بحالی، تباہ شدہ معیشت، اور اجڑے ہوئے خاندانوں کے لیے نہ کوئی واضح روڈمیپ دیا جا رہا ہے، نہ ہی ان نقصانات کے ازالے کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔ گویا جنگ کے زخموں پر مرہم رکھنے سے پہلے خاموشی کا پردہ ڈال دینا ہی کافی سمجھا جا رہا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اگر اس مجوزہ “دو ہفتے کی جنگ بندی” کے بعد بھی فلسطینیوں کی سیاسی شناخت، سماجی وقار اور انسانی حقوق سے جڑے بنیادی سوالات جوں کے توں برقرار رہتے ہیں، تو کیا یہ وقفہ کسی حقیقی امن کی طرف پیش رفت کہلائے گا؟ یا محض ایک نئی شورش کی تمہید؟
اگر بندوقوں کی خاموشی، انصاف کی غیر موجودگی میں حاصل ہو، تو وہ پائیدار امن نہیں بلکہ دباؤ کے تحت پیدا ہونے والا عارضی سکوت ہوتا ہے۔ جو جلد یا بدیر پھر ٹوٹتا ہے۔
امن صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ انصاف، خود ارادیت اور باوقار شراکت داری کے اصولوں پر استوار ہو۔ اگر فلسطینی قیادت کو ایک بار پھر مذاکرات سے باہر رکھ کر، یا صرف ایک رسمی تماشائی بنا کر، خطے میں استحکام لانے کی کوشش کی گئی، تو یہ نہ صرف ایک غیرمؤثر عمل ہوگا، بلکہ آنے والے برسوں کی نئی بے چینی، بداعتمادی اور بغاوتوں کی بنیاد رکھے گا۔