برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ’از سر نو بریگزٹ ڈیل‘ کے اہم نکات
اب جب کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان معاہدہ بالآخر منظر عام پر آ گیا ہے، دی انڈپینڈنٹ اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ اصل میں کن نکات پر اتفاق ہوا ہے۔
بریگزٹ کو از سر نو ترتیب دینے کے لیے برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر کی بات چیت میں آخری لمحات میں ہونے والی پیش رفت کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔
سر کیئر سٹارمر جنہوں نے بریگزٹ کی از سر نو ترتیب کو اپنی حکومت کا مرکزی ستون بنایا، نے کہا کہ پیر کا سربراہ اجلاس یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کے ایک ’نئے دور‘ کا آغاز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مطلب ’پرانی، باسی بحثیں کرنا‘ اور ’آگے کی جانب دیکھنا ہے نہ کہ پیچھے کی طرف۔‘
کچھ مسائل دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ثابت ہوئے۔ ماہی گیری کے حقوق کا معاملہ جسے بڑی رکاوٹ سمجھا گیا، مذاکرات کاروں نے صرف صبح کے ابتدائی اوقات میں جا کر حل کیا۔
دریں اثنا نوجوانوں کی نقل وحرکت کے منصوبے پر ہونے والی بات چیت بظاہر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور تعطل کا شکار ہو گئی، جیسے کہ وزیر اعظم کی اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو ازسر نو ترتیب دینے کا ان کا مشن واقعی کتنا کامیاب رہا، دی انڈپینڈنٹ اس پر ایک نظر ڈال رہا ہے کہ دراصل کیا کچھ طے پایا۔
نوجوانوں کی نقل و حرکت کا منصوبہ
مہینوں تک اس بات پر قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کہ نوجوانوں کی نقل و حرکت کی سکیم کس شکل میں سامنے آئے گی، تاہم یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔
اگرچہ یورپی یونین کی جانب سے برطانیہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا کہ وہ ایک ایسے منصوبے پر رضامند ہو جو 30 سال سے کم عمر افراد کو کئی سال تک برطانیہ اور براعظم یورپ میں تعلیم حاصل کرنے، رہنے اور کام کرنے کی اجازت دے، لیکن بظاہر مذاکرات کار کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے اور اس کی بجائے صرف آئندہ بات چیت کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ’یورپی کمیشن اور برطانیہ کو نوجوانوں کے لیے متوازن تجرباتی پروگرام کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے، جس کی شرائط باہمی اتفاق سے طے ہوں۔‘
اس میں مزید کہا گیا کہ کسی بھی معاہدے کو نوجوانوں کو محدود مدت کے لیے بیرون ملک کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے، سفر کرنے یا رضاکارانہ خدمات انجام دینے کی اجازت دینی چاہیے۔
متن کے مطابق ممکنہ معاہدے میں یہ بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ’شرکت کرنے والوں کی مجموعی تعداد دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو‘۔
اس کے ساتھ ساتھ، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ برطانیہ کی ایراسمس پروگرام میں دوبارہ شمولیت کی جانب ’پیش رفت کریں گے۔‘
اراسمس یورپی یونین کا پروگرام ہے جو طلبہ، اساتذہ اور عملے کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے، تربیت لینے، تجربہ حاصل کرنے اور رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لیے مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ کے بعد اس سکیم کو برطانوی طلبہ کے لیے ایک بڑا نقصان تصور کیا گیا۔
دفاع اور سلامتی
برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان سکیورٹی اور دفاعی شراکت داری کی طویل عرصے سے خواہش کی جاتی رہی ہے، اور اسے یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کے نئے تعلقات کا مرکزی پہلو تصور کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم آج کا معاہدہ تفصیلات کے لحاظ سے خاصا محدود نظر آتا ہے جس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہ شراکت داری سکیورٹی اور دفاع سے متعلق ’مکالمے اور تعاون کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرتی ہے۔
برطانیہ اور یورپی یونین نے متعدد شعبوں میں ’تعاون بڑھانے‘ پر اتفاق کیا جن میں یوکرین کی حمایت، فوجی اہلکاروں کی نقل و حرکت، خلائی سکیورٹی، سائبر سکیورٹی اور بحری سکیورٹی شامل ہیں۔
انہوں نے صحت کی سکیورٹی کے حوالے سے مزید تعاون کے امکانات پر غور کرنے پر بھی اتفاق کیا جس میں ’صحت کے ابھرتے ہوئے خطرات کا پتا لگانا، ان کے لیے تیاری کرنا، اور ان کا مؤثر جواب دینا شامل ہے تاکہ مستقبل میں وباؤں اور صحت کے بحرانوں سے بچا جا سکے اور ان کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ برطانیہ پہلی بار یورپی یونین کے شہریوں کے چہرے کی تصویری شناخت کے ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے بات چیت کا آغاز کرے گا، جس سے سرحد پار مجرموں کو پکڑنا آسان ہو جائے گا۔
ماہی گیری کے حقوق
ماہی گیری کے حقوق یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات میں بڑی رکاوٹ رہے، اور مذاکرات کار پیر کی صبح کے ابتدائی اوقات تک اس معاملے کی تفصیلات طے کرتے رہے۔ لیکن بڑی پیش رفت کے بعد برطانیہ نے اب یورپی یونین کی کشتیوں کے لیے اپنی ماہی گیری کی حدود مزید 12 سال کے لیے کھولنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے جو ابتدائی طور پر برطانیہ کی جانب سے تجویز کیے گئے پانچ سال کے عرصے سے کہیں زیادہ ہے۔
پاسپورٹ ای گیٹس
مذاکرات کاروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ’اپنے شہریوں کے مفاد کے لیے سرحدی نظام کو ہموار رکھنے پر بات چیت جاری رکھیں گے۔ اور کہا گیا کہ یورپی یونین کا آمد اور روانگی کا نظام متعارف ہونے کے بعد برطانوی شہریوں کے لیے ای گیٹس کے استعمال میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہو گی۔
ای گیٹس ایک خودکار آئی ٹی سسٹم ہے جو یورپی یونین سے باہر کے شہریوں کو مختصر مدت کے لیے قیام کے سلسلے میں ہر بار سرحد عبور کرتے وقت رجسٹر کرتا ہے۔
تجارت
معاہدے کے تحت حفظان صحت اور تباتانی تحفظ کے اقدامات (ایس پی ایس) کا معاہدہ طے پایا جو خوراک اور مشروبات کی درآمد و برآمد کو آسان بنائے گا۔
اس کا مقصد وہ کاغذی کارروائیاں کم کرنا ہے جو کاروباروں پر بوجھ ڈالتی تھیں اور سرحد پر ٹرکوں کی طویل قطاروں کا باعث بنتی تھیں۔
اس معاہدے کی کوئی مدت مقرر نہیں، جسے حکومت نے کاروبار کے لیے ’انتہائی اہم یقین دہانی‘ قرار دیا ہے۔
دریں اثنا جانوروں اور پودوں سے متعلق مصنوعات پر کی جانے والی کچھ معمول کی جانچ پڑتال کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا جس سے برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان اشیا کی آمد و رفت مزید آسان ہو جائے گی۔ برطانوی حکام نے کہا ہے کہ اس سے ’خوراک کی قیمتوں میں کمی اور سپر مارکیٹوں کی شیلفوں پر اشیا کے انتخاب میں اضافہ ہو سکتا ہے یعنی عوام کی جیب میں زیادہ پیسہ ہوگا۔‘
یہ معاہدہ انگریزی ساسیجز، قیمہ اور دوسری قسم کے فروزن گوشت کی مصنوعات کی برآمدات پر یورپی یونین کی جانب سے عائد پابندی کا بھی خاتمہ کرتا ہے، جو جنوری 2021 سے نافذ تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ، برطانوی فولاد کی برآمدات کو یورپی یونین کے نئے قواعد و ضوابط اور محدود کرنے والے ٹیرف سے تحفظ دیا جائے گا۔ حکومت کے اندازے کے مطابق، اس انتظام سے فولاد کی برطانوی صنعت کو ہر سال ڈھائی کروڑ پاؤنڈ کی بچت ہو گی۔
گیسوں کا اخراج
برطانیہ اور یورپی یونین نے ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے گرین ہاؤس گیسوں سے متعلق مارکیٹ کے نظام کو آپس میں جوڑ کر زیادہ قریبی تعاون پر اتفاق کیا۔ یہ مارکیٹ پر مبنی طریقہ ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور اس میں آلودگی پھیلانے والوں کے ایک گروپ کے لیے مجموعی اخراج کی حد مقرر کی جاتی ہے۔
زیادہ قریبی تعاون کے تحت برطانوی کاروبار یورپی یونین کے کاربن ٹیکس سے بچ سکیں گے، جو اگلے سال نافذ ہونے والا ہے اور جس کے نتیجے میں برطانوی کاروباروں کو 800 کروڑ پاؤنڈ تک ادا کرنے کا خطرہ تھا۔
وزرا کا کہنا ہے کہ ایس پی ایس معاہدہ اور گرین ہاؤس گیسوں سے متعلق مارکیٹ کے نظام کو جوڑنے کے اقدامات مل کر 2040 تک برطانوی معیشت میں تقریباً نو ارب پاؤنڈ کا اضافہ کریں گے۔